اسلام آباد : گزشتہ دو مالی سال میں ’جعلی‘ اور ’فلائنگ‘ انوائسز کے ذریعے 22 کھرب روپے (22 ہزار ارب روپے) سے زائد مالیت کی ٹیکس چوری کا انکشاف کیا گیا ہے، جو کمزور نفاذ کی وجہ سے عوامی رقوم کے بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان کو ظاہر کرتا ہے۔
انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ریونیو کے سامنے بیان دیتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے رکن حامد عتیق سرور نے کہا کہ گزشتہ سال 873 ارب روپے سے زائد کی جعلی اور فلائنگ انوائسز کا انکشاف ہوا ہے جو کہ ایک سال قبل 13 کھرب 70 ارب روپے تھا، جو دو سالوں میں مجموعی طور پر ساڑھے 22 کھرب روپے تک پہنچ گیا۔
انہوں نے فنانس بل 26-2025 کے تحت ٹیکس قوانین میں نرمی کے لیے کاروباری برادری کے مطالبات کے جواب میں کہا کہ ’یہ کسٹم کی جانب سے جمع کیے جانے والے کُل ٹیکس کا تقریباً ایک تہائی ہے‘۔
حامد عتیق سرور نے کہا کہ اس طرح کی بڑے پیمانے پر محصولات کے نقصان کو جاری نہیں رہنے دیا جا سکتا، جبکہ وہ ٹیکس حکام جو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہے تھے، ان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی یا صوبائی سطح پر کسی اور محکمے نے ایف بی آر کی طرح اپنی افرادی قوت کے خلاف تعزیری کارروائی نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ 1996 سے نافذ قانون کے تحت اگر کسی اسسٹنٹ کمشنر کے پاس یہ یقین کرنے کی وجوہات ہوں کہ ٹیکس چوری ہو رہی ہے، ریکارڈ میں چھیڑ چھاڑ ہو رہی ہے یا مشتبہ افراد بیرون ملک فرار ہو رہے ہیں تو گرفتاری کا تصور کیا گیا ہے، لیکن تازہ ترین فنانس بل نے تاجروں اور ٹیکس دہندگان کو ہراساں ہونے سے بچانے کے لیے متعدد تحفظات فراہم کیے ہیں۔
کمیٹی نے بجٹ 26-2025 میں متعدد بے ضابطگیوں پر وسیع بحث کی جس میں چیمبرز آف کامرس کے اراکین کی بریفنگ بھی شامل تھی، جس میں صرف شک کی بنیاد پر ایف بی آر کو گرفتاری کے اختیارات دینے والی شقوں پر خصوصی توجہ دی گئی۔
وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات بلال اظہر کیانی نے کہا کہ وزیراعظم نے چیمبرز کی شکایات کے ازالے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
مزید یہ کہ تاجر برادری کے مسائل کا وقتاً فوقتاً جائزہ لینے کے لیے ایک جائزہ اور ازالے کی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی۔
بلال اظہر کیانی نے کہا کہ تاجر برادری کے ساتھ تفصیلی بات چیت کے بعد چیمبرز کی طرف سے نمایاں کردہ خامیوں کو واضح کرنے کے لیے جلد ہی ایک سرکلر جاری کیا جائے گا۔
اجلاس کی صدارت کرنے والے سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور دیگر اراکین نے وزیر مملکت سے اتفاق کیا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی رضامندی سے فنانس بل کی منظوری کے صرف ایک ماہ بعد اس میں ترامیم کی کوشش کرنا اچھا نہیں ہوگا۔
ایف بی آر کے ایک اور رکن ڈاکٹر نجیب نے کہا کہ حکومت نے اتحادی شراکت داروں، ارکان پارلیمنٹ اور دیگر کی جانب سے مزاحمت کے بعد ٹیکس دہندگان کے اختیارات کو کم کر دیا تھا اور اس فنانس بل میں بہت فرق تھا جو پہلے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا اور بعد میں پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا تھا۔