نیویارک – کئی مغربی ممالک نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ستمبر میں منعقدہ اقوامِ متحدہ کی آئندہ جنرل اسمبلی اجلاس میں فلسطین کو ریاست تسلیم کر لیں گے ان ممالک میں وہ ریاستیں بھی شامل ہیں جنہوں نے ماضی میں فلسطین کی آزادی کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
آسٹریلیا، کینیڈا، فن لینڈ، نیوزی لینڈ، پرتگال، اندورا اور سان مارینو کے وزرائے خارجہ کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا مشرقِ وسطیٰ میں دو ریاستی حل کی جانب ایک "ضروری قدم” ہے۔ اس بیان پر ان کے ساتھ آئس لینڈ، آئرلینڈ اور اسپین جیسے ممالک نے بھی دستخط کیے جو پہلے ہی فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں۔
بیان میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ”ہم ان تمام اقوام کو دعوت دیتے ہیں جو مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن اور سلامتی کے خواہاں ہیں کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ہمارے فیصلے میں ہمارے ساتھ شامل ہوں۔”
اس مشترکہ اقدام کی حمایت اقوامِ متحدہ میں فرانس اور سعودی عرب کی قیادت میں جاری اس ہفتے کی بین الاقوامی کانفرنس کے تناظر میں سامنے آئی ہے، جس میں دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ٹھوس، بروقت اور مؤثر اقدامات کی حمایت کی جا رہی ہے۔
اس پیشرفت کے ساتھ ہی مالٹا کے وزیرِ اعظم رابرٹ ابیلا نے اعلان کیا کہ ان کا ملک ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کرے گا۔ انہوں نے کہا”یہ قدم مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے ہمارے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔”
اسی دن برطانوی وزیرِ اعظم کیئر سٹارمر نے بھی ایک اہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات نہیں کرتا تو برطانیہ بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا”ہم صرف زبانی حمایت پر قناعت نہیں کریں گے، بلکہ ضروری ہوا تو ہم فلسطین کو تسلیم کر کے اپنے اصولی مؤقف کو واضح کریں گے۔”
یہ تمام بیانات فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے گزشتہ ہفتے دیے گئے اس اعلان کے تناظر میں سامنے آئے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فرانس ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا”فرانس مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کا خواہاں ہے، اور فلسطین کی آزادی اس سمت ایک ناگزیر قدم ہے۔”
مبصرین کے مطابق، مغربی دنیا میں فلسطین کی خودمختاری کو تسلیم کرنے کی یہ نئی لہر اسرائیل پر سفارتی دباؤ بڑھا سکتی ہے، اور عالمی برادری کے سامنے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ایک نئی راہ ہموار کر سکتی ہے۔