اہم عرب ممالک — بشمول مصر، اردن، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات — نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے لیے غیر مسلح ہو جائے۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ مسلح مزاحمت کی بجائے سفارتی اور سیاسی طریقہ کار ہی ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مؤثر ذریعہ ہو سکتا ہے۔
عرب لیگ کی قیادت میں ایک مشترکہ علاقائی تجویز پر کام جاری ہے جس کے تحت تمام فلسطینی دھڑوں — خاص طور پر حماس — پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ تشدد سے دستبرداری اختیار کریں اور سیاسی مفاہمت میں حصہ لیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر فلسطینی ریاست کے قیام کو ممکن بنایا جا سکے۔
ایک اعلیٰ عرب سفارتکار نے بتایا”فلسطینی ریاست کے لیے امن، یکجہتی اور سیاسی عمل ناگزیر ہے۔”
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ بھی اسرائیل-فلسطین تنازعے کے پائیدار حل کی حمایت میں سرگرم ہو چکے ہیں۔ مغربی طاقتیں عرب ممالک پر زور دے رہی ہیں کہ وہ حماس جیسے سخت گیر عناصر پر اثرانداز ہو کر مذاکراتی حل کو ممکن بنائیں۔
عرب ممالک نے اپنی ممکنہ مالی امداد — جس کی مالیت اربوں ڈالر میں ہے — کو حماس کے غیر فوجی کردار اور سیاسی اصلاحات سے مشروط کر دیا ہے۔ امدادی رقوم صرف اسی صورت فراہم کی جائیں گی جب یہ یقین دہانی ہو کہ انہیں عسکری مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
خلیجی ریاست کے ایک اہلکار نے واضح کیا”ہم صرف اسی صورت میں تعمیر نو میں سرمایہ کاری کریں گے جب ہمیں اس بات کی ضمانت ملے کہ ہتھیار، ادارہ سازی سے تبدیل کیے جا چکے ہیں۔”
حماس نے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ”قبضے کے خلاف مزاحمت فلسطینیوں کا حق ہے، اور تخفیف اسلحہ کسی صورت قبول نہیں کی جا سکتی۔”
تاہم بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جنگی تھکن، عوامی دباؤ اور علاقائی تنہائی بالآخر حماس کو اسٹریٹجک پالیسی تبدیلی پر مجبور کر سکتی ہے۔