حماس کے سینئیر رہنما غازی حمد نے کہا کہ غزہ میں حماس کو منظر نامے سے ہٹانے کی کسی بھی کوشش کو قبول نہیں کریں گے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے گفتگو میں کیا۔
حماس رہنما نے اعتراف کیا کہ اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد سے ہمیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن یہ قیمت ہمیں ادا کرنی ہی تھی کیونکہ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
غازی حمد نے کہا کہ اگر مستقبل میں ایک باضابطہ فلسطینی ریاست قائم ہوتی ہے تو حماس اپنے ہتھیار قومی فوج کے حوالے کرنے پر تیار ہوگی۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فی الحال حماس کو کمزور یا ختم کرنے کی کسی بھی بیرونی تجویز کو نہیں مانتے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے تسلیم کیا کہ غزہ میں ہزاروں معصوم شہریوں کے جانوں کا نقصان ایک المیہ ہے لیکن ان کے بقول یہ قربانیاں فلسطینی کاز کو مزید نمایاں کرنے کا باعث بنی ہیں۔
خیال رہے کہ حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی کے لیے ایک 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا ہے۔
جس میں تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی فوری رہائی، مستقل جنگ بندی، اسرائیلی افواج کا بتدریج انخلا اور غزہ کے امور چلانے کے لیے ایک نئے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل شامل ہے۔
اس انتظامی ڈھانچے کی سربراہی ممکنہ طور پر سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کریں گے جب کہ 10 رکنی بورڈ میں عرب اور اسلامی ممالک کے نمائندے بھی شریک ہوں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں تعمیر نو کے لیے فنڈنگ اور محدود سطح پر فلسطینی اتھارٹی کی شمولیت کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔
تاہم اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بعض شقوں پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے خاص طور پر فلسطینی اتھارٹی کی شمولیت اور حماس کے فوری غیر مسلح نہ ہونے پر اعتراض اٹھایا ہے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل دوحہ میں جنگ بندی کی امریکی تجویز پر ہونے والے مشاورتی اجلاس کے دوران اسرائیل کے حماس قیادت پر حملے میں غازی حمد بھی بال بال محفوظ رہے تھے۔
اسرائیل کے اس فضائی حملے میں حماس کی قیادت تو محفوظ رہی تھی لیکن اہم رہنما الخلیل الحیا کے بیٹے سمیت 6 افراد شہید ہوگئے تھے۔