واشنگٹن — امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیلی پارلیمنٹ کے حالیہ فیصلے کو غزہ امن معاہدے کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے اسرائیل میں انضمام کی پیش رفت اور آباد کاروں کے بڑھتے تشدد سے امن عمل متاثر ہو سکتا ہے۔
مارکو روبیو نے اسرائیل روانگی سے قبل صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ
امریکہ مغربی کنارے کے انضمام جیسے اقدامات کی حمایت نہیں کر سکتا۔
انہوں نے زور دیا کہ اس طرح کے فیصلے نہ صرف علاقائی استحکام کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ
غزہ میں جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات کو بھی سبوتاژ کر سکتے ہیں۔
روبیو نے مزید کہا کہ متعدد ممالک غزہ میں بین الاقوامی امن فورس میں حصہ لینے کے لیے آمادہ ہیں تاکہ
جنگ بندی معاہدے کے نفاذ اور انسانی امداد کی ترسیل کو یقینی بنایا جا سکے۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق، اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جماعت لیکود نے
مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے بل کی حمایت نہیں کی،
تاہم 120 رکنی کنیسٹ (پارلیمنٹ) میں بل کو 25 کے مقابلے میں 24 ووٹوں سے ابتدائی منظوری دے دی گئی۔
یہ بل اب مزید غور کے لیے خارجہ امور و دفاعی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
اگر یہ بل حتمی منظوری حاصل کر لیتا ہے تو اسرائیلی قانون کو باضابطہ طور پر مقبوضہ مغربی کنارے پر لاگو کیا جائے گا،
جو زمینی انضمام کے مترادف ہے — ایک ایسا اقدام جسے فلسطینی اپنی آزاد ریاست کے قیام میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکی نائب صدر جے ڈی وینس
اسرائیل کے دورے پر ہیں تاکہ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کو ناکامی سے بچایا جا سکے۔
ماہرین کے مطابق، اگر اسرائیل نے انضمام کے عمل کو آگے بڑھایا تو
غزہ امن معاہدہ اور بین الاقوامی حمایت دونوں خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔