نئی دہلی — امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امیگریشن پالیسیوں میں سختی کے بعد بھارت کی معروف انجینئرنگ کمپنی ٹاٹا ٹیکنالوجیز نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مستقبل میں امریکا میں مقامی شہریوں کو بھرتی کرے گی تاکہ نئی پابندیوں کے اثرات سے بچا جا سکے۔
رائٹرز کے مطابق امریکی حکومت نے H-1B ویزا کے لیے بھاری فیس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جس سے امریکی کمپنیوں میں کام کرنے والے بھارتی ماہرینِ ٹیکنالوجی پر نمایاں اثر پڑا ہے۔
ٹاٹا ٹیکنالوجیز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر وارن ہیریس نے بتایا کہ کمپنی امریکی امیگریشن پالیسیوں میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق اپنی بھرتی حکمتِ عملی میں ترمیم کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا "ہم ویزا پالیسیوں میں تبدیلی کے مطابق ردعمل دے رہے ہیں، اور اس کا مطلب ہے کہ اب ہم امریکا میں زیادہ مقامی افراد کو روزگار فراہم کریں گے۔”
امریکی محکمۂ امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال H-1B ویزا ہولڈرز میں 75 فیصد بھارتی شہری تھے۔
پونے میں قائم ٹاٹا ٹیکنالوجیز گاڑیوں، ہوابازی اور بھاری مشینری کے عالمی برانڈز کو انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی سروسز فراہم کرتی ہے، جبکہ کمپنی کے 12,000 سے زائد ملازمین دنیا بھر میں بشمول امریکا میں کام کر رہے ہیں۔
کمپنی کے نمایاں کلائنٹس میں جیگوار لینڈ روور، ویتنامی الیکٹرک کار ساز ون فاسٹ، اور بوئنگ شامل ہیں۔
ٹاٹا ٹیک کے مطابق چین، سویڈن، برطانیہ اور امریکا میں اس کے 70 فیصد ملازمین مقامی شہری ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمپنی بین الاقوامی تنوع اور علاقائی مہارت پر زیادہ انحصار کر رہی ہے۔
وارن ہیریس نے کہا کہ اگرچہ امریکی ٹیکس اور ٹیرف پالیسیوں نے بھارتی آؤٹ سورسنگ کمپنیوں پر دباؤ بڑھایا ہے، تاہم امریکی مارکیٹ اب بھی انتہائی متحرک ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ "اگلے 6 سے 9 ماہ میں امریکی مارکیٹ میں بہتری آئے گی کیونکہ ہمارے گاہک نئی ٹیرف پالیسیوں سے ہم آہنگ ہو چکے ہیں۔”
کمپنی نے حال ہی میں جرمن انجینئرنگ فرم ES Tech گروپ کو 75 ملین یورو میں خریدنے کا معاہدہ بھی مکمل کیا ہے۔
ٹاٹا ٹیکنالوجیز کے مطابق آئندہ چند سالوں میں مزید ٹارگٹڈ انضمامات (Targeted Acquisitions) کیے جائیں گے تاکہ عالمی سطح پر کمپنی کا اثرورسوخ مزید بڑھایا جا سکے۔