ٹوکیو — جاپان کی نئی وزیراعظم سانائے تاکائیچی اپنی حکومت کے قیام کے فوراً بعد ہی ایک بڑے سفارتی امتحان سے گزرنے والی ہیں، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ایشیا کے دوران اُن سے ملاقات متوقع ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ملاقات نہ صرف جاپان کے دفاعی عزائم بلکہ خطے میں واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کے مستقبل کا بھی ابتدائی امتحان ثابت ہو سکتی ہے۔
تاکائیچی، جو برطانوی وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر کو اپنا سیاسی آئیڈیل مانتی ہیں، نے منگل کو جاپان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ تاہم، ان کی حکومت ایوانِ زیریں میں اکثریت سے صرف دو ووٹوں کے فرق سے محروم ہے، جو ان کے فیصلوں پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تاکائیچی ایک قدامت پسند رہنما ہیں جو جاپان کے دفاعی بجٹ میں نمایاں اضافہ کرنا چاہتی ہیں۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے سابق اہلکار اور آسٹریلیا کے یونائیٹڈ اسٹیٹس اسٹڈیز سینٹر کے سربراہ پروفیسر مائیکل گرین کے مطابق “وہ جاپان فرسٹ پالیسی پر یقین رکھتی ہیں، لیکن اُن کی اندرونی سیاسی کمزوری اُن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، خاص طور پر اگر ٹرمپ دفاعی اخراجات بڑھانے پر دباؤ ڈالیں۔”
تاکائیچی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جاپان کی حکمران لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) اور امن پسند جماعت کومیتو کے درمیان 26 سالہ اتحاد ختم کر دیا ہے۔ اس کے بجائے انہوں نے دائیں بازو کی جاپان انوویشن پارٹی (اشین) کے ساتھ اتحاد قائم کیا ہے، جو سیکیورٹی اصلاحات کی حامی سمجھی جاتی ہے۔
رینڈ کارپوریشن میں جاپانی سلامتی پالیسی کے ماہر جیفری ہورننگ کے مطابق “کومیتو ماضی میں پالیسیوں پر بریک کا کردار ادا کرتی تھی، لیکن اب حکومت کے دونوں اتحادی دفاعی نقطہ نظر میں یکساں سوچ رکھتے ہیں۔”
اشین پارٹی، تاکائیچی کی طرح، جاپان کے امن پسند آئین میں ترمیم، چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ، اور اسلحہ برآمدات پر پابندیوں میں نرمی کی خواہاں ہے۔ یہ اقدامات جاپان کے خطے میں بڑھتے ہوئے دفاعی کردار اور خودمختاری کے عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔
تاکائیچی آئندہ ہفتے ملائیشیا میں آسیان سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گی، جہاں اُن کی ٹرمپ سے غیر رسمی ملاقات متوقع ہے، جبکہ دونوں رہنماؤں کے درمیان باضابطہ مذاکرات ٹوکیو میں ہوں گے۔
ایک سینئر امریکی سفارت کار نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا “تاکائیچی کے لیے یہ ایک حقیقی سفارتی امتحان ہوگا — انہیں بہت کم وقت میں ٹرمپ جیسے سخت مذاکرات کار کا سامنا کرنا ہے۔”

