یروشلم — اسرائیلی وزیرِ خارجہ گیڈون سار نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں ترک مسلح افواج کی موجودگی کو کسی صورت قبول نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی منصوبے کے تحت مجوزہ بین الاقوامی فورس میں ترکی کی شمولیت “ناقابلِ قبول” ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے میں تجویز دی گئی ہے کہ دو سال سے جاری اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کو روکنے کے لیے غزہ میں ایک بین الاقوامی امن فورس تعینات کی جائے، جو جنگ بندی کو برقرار رکھنے میں مدد کرے۔
تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کون سے ممالک اپنی افواج اس فورس میں بھیجنے کے لیے تیار ہوں گے۔
بوڈاپیسٹ میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران گیڈون سار نے کہا“جو ممالک اپنی افواج بھیجنا چاہتے ہیں، انہیں کم از کم اسرائیل کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے۔”
انہوں نے کہا کہ ترکی، صدر رجب طیب اردوان کی قیادت میں، اسرائیل کے خلاف مخالفانہ رویہ اختیار کر رہا ہے، اس لیے اسرائیل کے لیے ترک فوج کو غزہ میں داخل ہونے دینا ممکن نہیں۔
سار کے مطابق، “ہم نے اپنے امریکی دوستوں کو واضح کر دیا ہے کہ غزہ میں ترک فوج کی موجودگی کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں ہوگی۔”
غزہ جنگ کے دوران ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں شدید کشیدگی دیکھی گئی ہے۔
صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل کی فضائی اور زمینی کارروائیوں کو “تباہ کن اور غیر انسانی” قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے مداخلت کا مطالبہ کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق، امریکہ غزہ میں مجوزہ فورس کے لیے انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر، ترکی اور آذربائیجان سمیت دیگر ممالک سے رابطے میں ہے۔
البتہ، ٹرمپ انتظامیہ نے اس فورس میں امریکی فوجی بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ “غزہ میں کن غیر ملکی افواج کو داخلے کی اجازت دی جائے، یہ فیصلہ اسرائیل کرے گا۔”
دوسری جانب، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل کے حالیہ دورے میں کہا کہ مجوزہ بین الاقوامی فورس “صرف ان ممالک پر مشتمل ہوگی جن پر اسرائیل کو اعتماد ہے۔” انہوں نے ترکی کی شمولیت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

