تہران/برسلز – اقوام متحدہ کے ادارے برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) کی ڈپٹی کمشنر جنرل نٹالی بوکلی نے کہا ہے کہ غزہ میں سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی خوراک اور زندگی بچانے والی اشیاء کی کمی تشویشناک حد تک بڑھ رہی ہے، جبکہ امدادی سامان کی بڑی مقدار اب بھی سرحد کے باہر موجود ہے۔
برسلز کے دورے کے دوران ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری، خصوصاً یورپی یونین اور امریکہ کو خطے میں امداد کی مسلسل اور بلا رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق UNRWA کے پاس تقریباً 6 ہزار ٹرکوں کے برابر خوراک، خیمے اور دیگر سامان موجود ہے جو تین ماہ تک غزہ کی پوری آبادی کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بوکلی نے بتایا کہ روزانہ درکار 500 سے 600 ٹرکوں کے مقابلے میں صرف نصف کے قریب ٹرک غزہ میں داخل ہو پا رہے ہیں، جبکہ تباہ شدہ انفراسٹرکچر بھی امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
UNRWA کی ڈپٹی کمشنر جنرل نے کہا کہ عالمی اصولوں کے مطابق قابض طاقتوں پر لازم ہے کہ وہ عام شہریوں تک بنیادی اشیائے ضرورت کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کی حالیہ مشاورتی رائے کا حوالہ بھی دیا جس میں کہا گیا تھا کہ مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے افراد کے لیے روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی دستیابی یقینی بنانا ضروری ہے اور UNRWA کے ساتھ تعاون کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔
ICJ نے اپنی 22 اکتوبر کی رائے میں یہ بھی واضح کیا تھا کہ اسے UNRWA کے عملے کی غیر جانبداری پر کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا جو اس کی کارروائیوں پر شکوک پیدا کرے۔ عدالت کے مطابق ادارے کے صرف چند ملازمین پر گزشتہ برس کے واقعات میں ممکنہ ملوث ہونے کے شبہات تھے، جن کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے۔
بوکلی کے مطابق ادارے کو اس بات کا کوئی عندیہ نہیں ملا کہ مستقبل قریب میں اسرائیل اور UNRWA کے درمیان رابطوں کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئے گی۔
UNRWA کی بنیاد 1948 میں اس وقت رکھی گئی جب خطے میں جنگ کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے۔ ادارہ اب بھی مقبوضہ علاقوں اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں صحت، تعلیم اور سماجی خدمات کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہے، جہاں تقریباً 5.9 ملین رجسٹرڈ فلسطینی پناہ گزین موجود ہیں۔
بوکلی نے کہا کہ موجودہ حالات میں UNRWA کا فعال رہنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کے کام کا کوئی فوری متبادل موجود نہیں۔

