
فسانہ / مشتاق اے سرور
پرانی صفیں لپیٹ لیں، خطے میں نئی صف بندی ہونے جا رہی ہے۔ حالات جو کروٹ لینے جا رہے ہیں وہ تجسس سے بھر پور اور حیران کن ہیں۔ پاکستان کے دوست افغان طالبان اب دوست نہیں رہے، بلکہ پاکستان کے خلاف آن کھڑے ہوئے ہیں اور بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا چکے ہیں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ جس امریکا نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اسے کھنڈرات میں بدل دیا، افغان طالبان اس سے دوستی کے خواہاں ہیں۔ اس حوالے سے رواں برس ناقابلِ یقین تبدیلیوں کا سال ہوسکتا ہے۔ افغان طالبان نے فقط دو ہفتے قبل اقرار کیا ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرات مند، دلیراور قوتِ فیصلہ رکھنے والے رہنما ہیں۔ اگرچہ امریکا کی نئی انتظامیہ کی طرف سے افغانستان پرنئی پابندیوں کے بادل منڈلا رہے ہیں مگر انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ افغانستان اور امریکہ باہم دوست بن جائیں۔ وہ ٹرمپ حکومت سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ امریکاکے حوالے سے طالبان حکومت نے ایک زبردست بیان جاری کیا ہے کہ دشمنی یا دوستی ہمیشہ کیلئے نہیں ہوتی، دشمن ہمیشہ کیلئے دشمن اور دوست ہمیشہ کیلئے دوست نہیں ہوتے۔ طالبان نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے کہا ہے کہ ہم ماضی میں سوویت یونین سے لڑے اور اس نے ہمارے لاکھوں افراد کو مارا، لیکن اب روس کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔ انہوں نے امریکا پر زور دیا کہ وہ دوحہ معاہدے کا احترام کرتے ہوئے کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولے۔ امریکی حکومت افغان حکومت کے بینک کے اثاثے ریلیز کرے، طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیاں ختم کرے اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے پہلے دور میں امریکی انتظامیہ نے فروری 2020ء میں طالبان کے ساتھ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کا معاہدہ کیا تھا۔
طالبان نے امریکا اور اتحادی فوج کے انخلا کے بعد 15 اگست 2021ء کو کابل کا اقتدار سنبھالا، لیکن تین برس سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی تاحال ان کی حکومت کو دنیا کے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔ تاہم ایران، پاکستان، چین اور روس سمیت کچھ ممالک نے افغانستان کے سفارت خانوں کو طالبان کے مقرر کردہ سفارتی مشنز کے حوالے کیا ہے۔
عباس ستنکزئی نے امریکا کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ طالبان حکومت نے دشمنی کے دروازے بند کر دیئے ہیں۔طالبان کی خواہش کے پیشِ نظر امریکا وہی فیصلہ کرے گا جو اس کے مفاد میں ہو مگر ہم یہاں یہ جائزہ لیں گے کہ کیا افغان طالبان اور امریکاکی دشمنی دوستی میں بدل سکتی ہے، اگر ایسا ہوا تو کن بنیادوں پر ہوگا، خطے پر اس کے اثرات کیا ہوں گے، پاکستان کو طالبان امریکا دوستی کا فائدہ ہوگا یا نقصان، اس سارے معاملے میں چین اور روس کہاں کھڑے ہوں گے، کیا اس عمل کے بعد ایران کو نئے چیلنج درپیش ہوں گے، کیا امریکا افغانستان سے دوستی کر کے افغان طالبان کو خطے میں موجود اپنے حریفوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا افغانستان امن کا گہوارہ بن جائے گا، یا ماضی کی طرح ایک نئے جنگی دور میں داخل ہو جائے گا۔
ان سب سوالوں کے جوابات تلاش کرنے سے قبل یہ جان لینا ضروری ہے کہ کیا طالبان امریکا دوستی میں بھارت کوئی کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے…؟ تو اس کا جواب ہے۔ ہاں…! سو فیصد ہاں…!! گزشتہ کچھ ماہ سے افغان طالبان اور مودی سرکار پیار کی پینگیں جُھول رہے ہیں۔ پاک افغان سرحد پر چپقلش کے بعد افغان بھارت لوسٹوری ایک نئے موڑ پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ گزشتہ چند روز میں دونوں ممالک کے باہمی روابط میں شدت آئی ہے۔ اس دوران اگر طالبان حکومت اور امریکا کی دوستی ہو جاتی ہے تو بھارت اس موقع کو غنیمت جان کر خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کی بھر پور کوشش کرے گا۔ اس مقصد کیلئے بھارت اور افغانستان کے نہ صرف بیک ڈور روابط جاری ہیں بلکہ بھارت خود امریکا میں اس دوستی کیلئے لابنگ کر رہا ہے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ وہ افغان طالبان کو اپنے زیر سایہ لا کر پاکستان کے خلاف استعمال کرے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغان طالبان اور امریکا کی دشمنی دوستی میں بدل سکتی ہے تو انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ریاستوں کی دوستیاں اور دشمنیاں ہمیشہ نہیں رہتیں۔ اگر افغان طالبان اور امریکا ایک دوسرے کے تحفظات دور کر دیں تو عین ممکن ہے کہ مستقبل میں افغانستان خطے میں امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی ہو۔ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان دوستی کا سوال ایک نازک، پیچیدہ اور مختلف پہلو رکھتا ہے۔ تاریخ اور سیاست کے تناظر میں دونوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم دوستی کو مشترکہ مسائل حل کرنے اور مذاکرات کے ذریعے بہتری لانے کے طور پر دیکھیں تو ٹرمپ دورِ حکومت میں اچھی خاصی گنجائش موجود ہے۔ اگر دونوں فریق اپنے مفادات کو بہتر طریقے سے واضح کریں اور ان پر عمل کریں، تو دوستی کا ایک پلیٹ فارم بنایا جا سکتا ہے، جو افغانستان کے امن اور خطے کے استحکام کے لئے موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ افغانستان کے اندر استحکام اور دہشت گردی کے خلاف اقدامات امریکا کیلئے ضروری ہیں۔ طالبان اگر امریکا کے ساتھ مل کر کام کریں تو تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔ اگر دونوں فریق اپنے سیاسی اور مذہبی نظریات کے باوجود ایک دوسرے کے مقاصد کو سمجھنے کی کوشش کریں تودونوں کے قریب آنے میں آسانی ہوگی۔
افغان طالبان کا مذہبی نظریہ اور امریکا کا لبرل ڈیموکریسی کا تصور ایک دوسرے سے مختلف ہیں، جو تعلقات میں رکاوٹ کا باعث ہو سکتے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان، چین اور روس جیسے ممالک کا اپنا کردار ہے جو ان تعلقات پر اثر ڈال سکتا ہے۔ اگر طالبان اور امریکا کے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں تو افغانستان میں استحکام، پاکستان کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ تعلقات پاکستان کے کردار کو نظر انداز کرکے استوار کئے گئے، تو پاکستان کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کیلئے نہایت بصیرت کے ساتھ اضافی سفارتی اور اسٹریٹیجک اقدامات کرنا ہوں گے۔ ان تعلقات کا پاکستان کو جہاں فائدہ ہوگا وہاں نقصان کا اندیشہ بھی ہے۔ امریکا اور طالبان کے درمیان بہتر تعلقات پاکستان کو افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی راستے کھولنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر پاکستان کو ان تعلقات میں شامل نہ کیا گیا تو اسے اقتصادی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ اپنی اسٹریٹیجک پوزیشن کو برقرار رکھنے کیلئے طالبان پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھے، ورنہ امریکا کے ساتھ طالبان کے قریب ہونے سے پاکستان کا کردار کم ہو سکتا ہے۔
افغانستان میں استحکام، چین کے BRI منصوبے کیلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ خطے میں اقتصادی روابط کو فروغ دیتا ہے۔ لیکن اگر امریکا طالبان کے ساتھ مل کر اپنی اقتصادی طاقت بڑھاتا ہے تو چین کو اپنی منصوبہ بندی میں تبدیلیاں کرنا پڑ سکتی ہیں۔ افغانستان کی معدنیات اور وسائل چین کیلئے اہم ہیں، اگر امریکا طالبان کے ساتھ مل کر ان وسائل پر قابض ہو جائے تو چین کیلئے نئے چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں۔ امریکا طالبان قربت خطے میں امریکی اثرورسوخ کو بڑھا سکتی ہے، جو چین کی علاقائی پالیسیوں کے خلاف ہو سکتی ہے۔
اسی طرح اگر روس کو دیکھا جائے تو طالبان اور امریکا کی دوستی روس کیلئے نہایت پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ کیونکہ روس وسطی ایشیائی ریاستوں میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ روس کو خدشہ ہو سکتا ہے کہ طالبان اور امریکا کی قربت سے خطے میں دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی میں مشکلات پیدا ہوں گی، یا کچھ گروہ روسی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ امریکا طالبان تعلقات روس کو خطے میں اپنی اسٹریٹیجک پوزیشن پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں، کیونکہ روس طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک متوازن طریقے سے چلانا چاہے گا۔
امریکا طالبان تعلقات افغانستان میں ایران کے اثرورسوخ کو بھی محدودکرسکتے ہیں۔ ایران نے افغانستان میں ہمیشہ شیعہ برادری اور دیگر گروہوں کے ذریعے اپنی موجودگی کو برقرار رکھا ہے، لیکن امریکا اور طالبان کی قربت سے یہ اثر کم ہو سکتا ہے۔ ایران پہلے ہی امریکی پابندیوں اور سیاسی دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔ اگر طالبان اور امریکا باہم دوست بن جاتے ہیں تو امریکا خطے میں ایران کے خلاف مزید جارحانہ رویہ اختیار کر سکتا ہے۔ ایران افغانستان کے ساتھ تجارت کے ذریعے اپنی معیشت کو سہارا دیتا ہے، مگر امریکا طالبان دوستی سے افغان مارکیٹ تک ایران کی رسائی محدود ہو جائے گی۔ ایران کی چاہ بہار بندر گاہ افغانستان اور وسطی ایشیا تک تجارتی راستے کھولنے کیلئے اہم ہے۔ لیکن اگر امریکا طالبان کے ساتھ مل کر دیگر تجارتی راستے کھولنے کی کوشش کرے تو چاہ بہار کی اہمیت کم ہو جائے گی۔ ایران اور افغانستان کی سرحدی کشیدگی، خاص طور پر پانی کے وسائل اور مہاجرین کے مسائل پر مزید بڑھ سکتی ہے۔ طالبان اورامریکا کی قربت سے ایران کو خطرہ ہو سکتا ہے، جواب کے طور پر ایران ممکنہ طور پر روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کرے گاتاکہ امریکی اثرورسوخ کو کم کیا جاسکے۔
طالبان اور امریکا کے درمیان دوستی خطے کیلئے ایک نئے سیاسی اور اقتصادی توازن کا آغازہوسکتی ہے۔ پاکستان، چین، روس اور ایران کو اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے نئی حکمت عملیوں پر غور کرنا ہوگا۔ یہ صورت حال موقع بھی فراہم کرسکتی ہے اور چیلنجز بھی۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ ممالک بدلتے حالات میں اپنے فیصلے کیسے کرتے ہیں۔