
فسانہ/ مشتاق اے سرور
تم نے جو کرنا ہے کرلو…! کیا کر لو گے…؟ میں کسی صورت دستخط نہیں کروں گا۔ نواز شریف نے انکار کرتے ہوئے جواب دیا۔ وزیر اعظم نواز شریف اورنامزد آرمی چیف، سابق ڈی جی آئی ایس آئی خواجہ ضیاء الدین بٹ دونوں ہی بندوق کی نوک پر تھے۔ 12 اکتوبر 1999 ء کو جب اُس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹاتو وزیراعظم ہاؤس میں ہنگامی صورت حال اور بے چینی تھی۔ روئیداد اس قدر خطر ناک اور نازک تھی کہ ایوانِ وزیرِ اعظم میں داخل ہونے والے فوجیوں کی بندوقیں بالکل تیار تھیں کہ ٹریگر پر ذرا سا دباؤ پڑتا اور گولیاں چل جاتیں۔ ایوانِ وزیرِ اعظم میں داخل ہونے والے جرنیلوں میں جنرل محمود بھی شامل تھے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی جنرل محمود نے جنرل ضیاء الدین بٹ کو ایک زور دار سلیوٹ کیا اور اعلانیہ پیغام دیا کہ پرویز مشرف ابھی تک آرمی چیف ہیں، اور آپ ساتھ والے کمرے میں چلے جائیں۔ ساتھ والا کمرا کیا تھا ایک راہداری تھی جس کے چاروں طرف شیشے کے دروازے تھے۔ ان شیشوں کے دوسری طرف جنرل بٹ جو منظر دیکھ رہے تھے اس میں جنرل پرویز مشرف کا جبر اور نواز شریف کا صبر باہم دست و گریباں تھے اور جنرل محمود وزیر اعظم نواز شریف سے جارحانہ انداز میں مخاطب تھے۔
یہ وہ دن تھا جب ایک طرف آرمی چیف جنرل پرویز مشرف ملک کی فضاؤں میں پرواز کر رہے تھے، تو دوسری طرف بطور آرمی چیف نامزدگی پر جنرل ضیاء الدین بٹ فون پر مبارکبادیں وصول کر رہے تھے۔ انہیں جی ایچ کیو سے فون آرہے تھے کہ کل جب وہ جی ایچ کیو تشریف لائیں گے تو ان کے اعزاز میں تقریب منعقد کی جائے گی اور گارڈ آف آنر پیش کیا جائے گا۔دونوں طرف کے اعصاب سخت تناؤ میں تھے کہ اس دوران کور کمانڈر کراچی جنرل مظفر عثمانی کا فون بجتا ہے، دوسری طرف جنرل محمود تھے، یکدم پیدا ہونے والی نئی صورتِ حال سے متعلق دونوں کے درمیان مختصر مگر اہم مکالمے کے بعد طے ہو جاتا ہے کہ ”کرنا کیا ہے“۔ فون کالوں کا یہ سلسلہ مختلف سطحوں پر پورے ملک میں جاری تھا۔ انہی فون کالوں میں ایک کال جنرل ضیاء الدین کی بھی تھی جو انہوں نے جنرل عثمانی کو کی۔ اپنے تقرر اور نئی تبدیلیوں سے آگاہ کرنے کے بعد جنرل ضیاء الدین نے جنرل عثمانی کو ہدایت دی کہ وہ ائیر پورٹ جا کر جنرل مشرف کا استقبال کریں اور انہیں بصد احترام وخلوص آرمی ہاؤس پہنچا دیں۔ جنرل عثمانی کا فون بند ہوتے ہی پھر گھنٹی بج اٹھی۔ دوسری طرف وزیر اعظم نواز شریف کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈئیر جاوید اقبال موجود تھے، انہوں نے جنرل عثمانی کو دو ٹوک پیغام دیا کہ جنرل پرویز مشرف کو پروٹوکول دینے کے بجائے انہیں آرمی ہاؤس میں نظر بند کر دیا جائے۔ آن کی آن میں کہیں کوئی حکمت عملی اختیار کی جا رہی تھی تو کہیں کوئی اور تانے بانے بُنے جا رہے تھے۔ احکامات، ہدایات اور مشاورت کے ان فیصلہ کن لمحوں میں اُسی روز جنرل ضیاء الدین بٹ نے مبارکباد کی اگلی کال وصول کرنے کے لیے رسیوراٹھایا تو دوسری طرف سے انہیں اطلاع دی گئی کہ جنرل پرویز مشرف نے ”کُو“ کر دیا ہے۔ اس کے بعد ٹیلی فون، سیل فون اور دیگر ذرائع مواصلات منقطع کر دیے گئے، اور پی ٹی وی اسٹیشن کا محاصرہ کر کے ٹرانسمشن قبضے میں لے لی گئی۔
وزیرِ اعظم نواز شریف نے اپنے جمہوری اختیارات استعمال کرتے ہوئے خواجہ ضیاء الدین بٹ کو فوج کا سربراہ مقرر کیا، مگر اوپر فضاؤں میں جنرل پرویز مشرف نے جو ترکیب کی تھی وہی کامیاب رہی۔ ہر لمحہ سنسنی خیز اور ہر قدم تہلکہ خیز تھا۔جنرل پرویز مشرف کی وطن واپسی پر جو قدم اٹھایا جانا تھا، اس کا فیصلہ فضاء میں پرواز کے دوران ہی کر لیا گیا اور وزیر اعظم نواز شریف چند لمحے پہلے ہی مقرر کیے گئے اپنے آرمی چیف سمیت گرفتار کر لئے گئے۔ جو کور کمانڈرز جنرل ضیاء الدین بٹ کو مبارکبادیں دے رہے تھے وہ خاموشی سے جنرل پرویز مشرف کے پیچھے ہو لیے۔
نظر بندی کے دوران جنرل بٹ کو صفائی والے عملے سے کچھ خبریں مل جاتی تھیں، اس دوران انہیں یہ خبر ہوئی کہ اٹک قلعہ میں نواز شریف کے لئے پھانسی کا پھندا تیار کیا جا چکا ہے، اور دو دن کے اندر انہیں پھانسی دے دی جائے گی۔ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کے لئے تو پھانسی کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی مگر جنرل بٹ کے لئے انہوں نے سوچ رکھا تھا کہ وہ نظربندی میں ہی زندگی کے دن پورے کر لیں اور فوج کو ان کی موجودگی بارے علم بھی نہ ہو۔ جنرل مشرف نے کسی کو بھنک نہ پڑنے دی کہ جنرل بٹ کو کہاں قید کر رکھا ہے۔
یہ ایک ڈرامائی لمحہ تھا، جب ایک منتخب حکومت کا خاتمہ ہوا، اور پاکستان کی سیاست ایک نئے موڑ میں داخل ہوگئی۔ اگرجنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 ء کو نواز شریف کی حکومت نہ گراتے تو پاکستان کی جمہوری، سیاسی اور اقتصادی صورت حال یقینا مختلف ہوتی۔ اس اقدام سے مجموعی طور پر پاکستان کو سیاسی اور اقتصادی طور پر طویل مدتی نقصان ہوا۔ اگرجنرل پرویز مشرف مداخلت نہ کرتے تو جمہوریت مضبوط ہوتی اور ادارے مستحکم ہوتے۔ اس اقدام سے سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں سویلین حکومتوں پر فوجی اثرورسوخ مزید بڑھ گیا۔ اس دور میں نواز حکومت نے کچھ سخت معاشی اصلاحات شروع کی تھیں، جن کا تسلسل اگر برقرار رہتا تو شاید پاکستان کو آئی ایم ایف پر کم انحصار کرنا پڑتا۔ پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں بظاہر معیشت ترقی کرتی نظر آئی مگر بعد میں قرضوں، کرپشن اور غیر مستحکم پالیسیوں کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔ اگر جمہوریت قائم رہتی تو معیشت میں طویل مدتی بہتری آسکتی تھی کیونکہ پالیسیوں میں سرمایہ کاروں کو زیادہ تسلسل ملتا۔ امریکا کا ساتھ دینے اور افغانستان میں مداخلت کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔ اگر یہ مداخلت نہ ہوتی تو شائد پاکستان کو شدید دہشت گردی، خود کش حملوں اور اندرونی خلفشار کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
اگر نواز شریف کی حکومت اپنی مدت مکمل کرتی اور جمہوری تسلسل برقرار رہتا تو سیاست میں فوج کی مداخلت کے امکانات کافی حد تک کم ہو جاتے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ زیادہ با اختیار ہو سکتی تھیں جس سے قانون کی بالادستی قائم رہتی۔ اس دور میں اگر اقتصادی اصلاحات کے منصوبے مکمل ہوتے تو پاکستان کا معاشی مستقبل زیادہ مستحکم ہوتا، جس سے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتاکیونکہ کاروباری طبقے کو جمہوری حکومتوں پر زیادہ اعتماد ہوتا ہے۔ ممکن تھا کہ پاکستان نائن الیون کے بعد امریکا کی جنگ میں شامل نہ ہوتا یا پھرریاستی مفادات کو سامنے رکھ کر نہایت محدود پیمانے پر شامل ہوتاجس سے عسکریت پسندی اور خود کش حملوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ 2007 ء میں چیف جسٹس کی برطرفی اور وکلا تحریک شائد نہ ہوتی، اور عدلیہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوتی۔ میڈیا پر قدغن نہ لگتی اور پاکستان میں آزاد صحافت کو فروغ حاصل ہوتا۔
اگرنواز شریف کو 12 اکتوبر کا جبر نہ سہنا پڑتا تو پاکستان آج زیادہ مستحکم جمہوری ملک ہوتاجہاں معیشت، میڈیا اور عدلیہ زیادہ آزاد ہوتے۔ دہشت گردی کا عفریت شائد اتنا شدید نہ ہوتا اور سولین حکومتیں زیادہ خود مختار ہوتیں۔ اگرچہ نوازشریف حکومت کی متعدد کمزوریوں پر بحث ہو سکتی ہے تاہم جمہوری حکومتوں کا تسلسل ہی اداروں کو مضبوط کرتا ہے۔ بار بار مارشل لاء لگنے سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہے، جو آج بھی پاکستان کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔