سندھ طاس معاہدہ، اشتعال انگیز بیانات اور خطے میں بڑھتی کشیدگی پر اسلام آباد کا سخت مؤقف
پاکستان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو ہتھیار بنانے کی دھمکی کو بین الاقوامی قوانین اور اخلاقی اصولوں کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ مودی کی اشتعال انگیز بیان بازی نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ بھارت کے عالمی سطح پر پھیلائے گئے امن پسندی کے بیانیے کی نفی کرتی ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ”پانی جیسا بنیادی انسانی حق کسی بھی صورت میں سیاسی یا عسکری دباؤ کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ سندھ طاس معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جس کی خلاف ورزی عالمی ضمیر کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ مودی کا بیان عالمی اقدار کے برعکس اور انسانی سلامتی کے خلاف ایک خطرناک طرز عمل کی عکاسی کرتا ہے۔
ترجمان نے واضح کیا کہ بھارت بیرون ملک قتل و غارت اور دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہے, داخلی معاملات میں مداخلت کو بطور پالیسی استعمال کرتا ہے ,مقبوضہ علاقوں اور اقلیتوں پر جبر کو معمول بنا چکا ہے
انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں منظم جبر، بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کا تسلسل ہے، اور اب پانی جیسے بنیادی حق کو دھمکی کا ذریعہ بنانا، علاقائی امن کے لیے تشویش ناک ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا "قومی جذبات کو بھڑکا کر تالیاں سمیٹنا وقتی فائدہ تو دے سکتا ہے، مگر یہ خطے میں طویل المدتی امن و استحکام کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔”
انہوں نے بھارت کے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ خوف اور نفرت پر مبنی سیاست کو مسترد کریں اور خطے کے لیے وقار، دلیل اور تعاون پر مبنی راستے کا انتخاب کریں۔
سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا، جس کے تحت بھارت اور پاکستان کو بالترتیب مشرقی اور مغربی دریا دیے گئے۔ یہ معاہدہ اب تک جنوبی ایشیا میں آبی امن کا ستون رہا ہے۔ بھارتی دھمکیاں اسے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کے مترادف ہیں۔
پاکستان کی جانب سے اقوامِ متحدہ، عالمی بینک اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بھارت کی آبی جارحیت پر نوٹس لیں اور خطے میں ماحولیاتی و انسانی بحران سے بچنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔