آج دنیا نے انسانیت کی تاریخ کے بدترین واقعات میں سے ایک — ہیروشیما پر ایٹمی بم گرائے جانے — کی 80 ویں برسی منائی، جب 6 اگست 1945 کو امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی شہر پر "لِٹل بوائے” نامی ایٹمی بم گرایا تھا، جس سے ہزاروں انسان ایک لمحے میں راکھ ہو گئے اور جاپان کی تاریخ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔
ہیروشیما کے پیس میموریل پارک میں ایک پرامن یادگاری تقریب منعقد ہوئی جس میں زندہ بچ جانے والے افراد (ہیباکوشا)، جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدا، اقوام متحدہ کے نمائندے، سفارتی مندوبین اور دنیا بھر سے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
وزیر اعظم کشیدا نے اپنے خطاب میں کہا”ہیروشیما کے المیے نے ہمیں سکھایا کہ ایٹمی ہتھیار کبھی بھی امن کا ضامن نہیں بن سکتے۔ دنیا کو ایٹمی تباہی کے دہانے سے واپس لانا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔”
6 اگست 1945 کی صبح 8:15 بجے، امریکی جنگی طیارے اینولا گے سے گرائے گئے ایٹم بم نے شہر کو لمحوں میں ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ اندازوں کے مطابق فوری طور پر تقریباً 70,000 افراد ہلاک ہو گئے، جب کہ سال کے آخر تک یہ تعداد 140,000 سے تجاوز کر گئی تھی۔
آج بھی زندہ بچ جانے والے بہت سے افراد مہلک بیماریوں، ذہنی صدموں اور نسل در نسل منتقل ہونے والے نقصانات سے دوچار ہیں۔
ہیباکوشا میں سے ایک 93 سالہ میساکو سوزوکی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا”میں نے بچپن میں آگ کا طوفان، جلی ہوئی لاشیں اور ملبے میں چیختے انسان دیکھے۔ اب بھی ہر صبح وہ منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔”
ہیروشیما کی برسی ایسے وقت آئی ہے جب دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ ایک بار پھر خطرناک سطح پر جا پہنچا ہے۔ امریکہ، روس، چین، بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا جیسے ممالک اپنے ایٹمی پروگرامز کو وسعت دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے پیغام میں کہا”ہمیں اب مزید خاموشی افورڈ نہیں۔ ایٹمی ہتھیار انسانیت کے خلاف ہیں — انہیں ختم کرنا لازم ہے۔
آج ہیروشیما نہ صرف تباہی کی داستان ہے بلکہ امن، برداشت اور انسانیت کے استعارے کے طور پر دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد یہاں آ کر مرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور امن کے لیے دعا کرتے ہیں۔
ہیروشیما کے میئر کازومی ماتسوی نے کہا”ہمارا شہر اب جنگ کا نہیں، امن کا استعارہ ہے۔ ہم کبھی نہیں بھولیں گے اور دنیا کو بھی یاد دلاتے رہیں گے۔”