غزہ — اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے اسرائیل کے غزہ کی پٹی پر مکمل قبضے کے مجوزہ منصوبے کی شدید مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس اقدام کو بھرپور اور سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گروپ نے اس منصوبے کو خطے کے لیے ایک "سنگین اضافہ” اور تقریباً 20 لاکھ فلسطینیوں کے خلاف "جنگی جرم” قرار دیا۔
جاری کردہ بیان میں حماس نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی حالت زار کو نظرانداز کرتے ہوئے "نسلی تطہیر” کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
حماس کا مؤقف ہے کہ یہ منصوبہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اسرائیل نے حالیہ جنگ بندی مذاکرات سے اچانک دستبرداری کیوں اختیار کی۔ گروپ کے مطابق، یہ مذاکرات جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے دونوں میں پیش رفت کے قریب تھے۔
بیان میں واضح کیا گیا کہ قبضے کی کسی بھی کوشش کا جواب سخت عسکری مزاحمت سے دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی حماس نے قطر اور مصر کے ذریعے ایک جامع معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی تیاری کا اعادہ کیا، جس میں دشمنی کے خاتمے اور اسرائیلی افواج کے انخلاء کے بدلے تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے۔
حماس نے امریکہ پر بھی براہِ راست تنقید کی، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ واشنگٹن اسرائیل کی سیاسی و فوجی مدد کے باعث اس بحران میں شریکِ جرم ہے۔