استنبول کے میئر اکرام امام اوغلو کی گرفتاری کے خلاف ترکی کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شدت اختیار کر گئے ہیں۔ حکام نے احتجاج روکنے کے لیے سخت کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا، جس میں متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
مظاہرے اور حکومتی ردعمل
استنبول، انقرہ اور ازمیر سمیت کئی شہروں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے، جنہوں نے حکومت مخالف نعرے لگائے اور امام اوغلو کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا، جبکہ درجنوں اپوزیشن رہنماؤں اور صحافیوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔
امام اوغلو کی گرفتاری کی وجوہات
یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب ترک حکام نے امام اوغلو کے یونیورسٹی ڈپلومہ کو منسوخ کر دیا، جس سے انہیں آئندہ صدارتی انتخابات کے لیے نااہل قرار دیے جانے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ اپوزیشن نے اس فیصلے کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ترکی میں جمہوری عمل پر حملہ ہے۔
سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن
ترک استغاثہ کے مطابق، 261 سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نشاندہی کی گئی ہے جو مبینہ طور پر "ریاست مخالف” مواد پھیلا رہے تھے، اور ان میں سے 37 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان پلیٹ فارمز کو بدامنی بھڑکانے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا، جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اپوزیشن کی آواز دبانے کی کوشش ہے۔
بین الاقوامی ردعمل
ترکی میں جاری سیاسی بحران پر بین الاقوامی ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ جرمن چانسلر اولاف شولز نے امام اوغلو کی گرفتاری کو "جمہوریت کے لیے دھچکا” قرار دیا، جبکہ یورپی یونین نے ترکی کو تعلقات پر منفی اثرات کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
سیاسی صورتحال مزید کشیدہ
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ملک گیر احتجاج کی کال دے دی ہے، جس سے ترکی میں سیاسی تناؤ مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ ماہرین کے مطابق، حکومت کے اس سخت ردعمل سے ترکی کے داخلی استحکام اور بین الاقوامی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔