واشنگٹن پر دباؤ، تہران کی جوہری سرگرمیوں پر سخت مؤقف اپنانے کا مطالبہ
ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کے تناظر میں اسرائیل نے سخت ردعمل دیتے ہوئے امریکہ کو متنبہ کیا ہے کہ ایران کو یورینیم کی افزودگی کی اجازت دینا مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ کسی بھی قسم کی نرمی اسرائیل کے تزویراتی اور فوجی اختیارات کو محدود کر سکتی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بارہا کہا ہے کہ ایران کو یورینیم کی افزودگی کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق”یہ عمل تہران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کے انتہائی قریب لے جا سکتا ہے، جس سے پورا خطہ غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔”
واشنگٹن کے سفارتی ذرائع کے مطابق بائیڈن انتظامیہ سفارتی عمل کو محفوظ رکھنے کے لیے ممکنہ طور پر کچھ عارضی رعایتوں پر غور کر رہی ہے۔ اس کا مقصد مذاکرات کو کسی نتیجے تک پہنچانا اور ایران کو پابندیوں میں نرمی کے بدلے جوہری نگرانی کے لیے آمادہ کرنا ہے۔
تاہم اسرائیل کو خدشہ ہے کہ یہ پالیسی ایران کے لیے ایک خطرناک راستہ کھول سکتی ہے۔
اسرائیلی انٹیلی جنس کا دعویٰ ہے کہ ایران نے اپنی افزودگی کی صلاحیتوں میں اضافہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اسرائیلی دفاعی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے "سرخ لکیریں عبور کیں”، تو اسرائیل یکطرفہ کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے،دفاعی اسٹریٹجی کو فعال کر دیا جائے گا اور ایران کے خلاف پیشگی حملے کے امکانات زیر غور لائے جائیں گے
واشنگٹن نے اب تک تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ سفارتی عمل جاری رکھنا ضروری ہے تاکہ کسی براہ راست تصادم سے بچا جا سکے۔
اسرائیلی حکام نے کہا ہے "ہم اپنے امریکی شراکت داروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے مؤثر اور غیر مبہم پالیسی اپنائیں۔”یہ مذاکرات نہ صرف ایران امریکہ تعلقات بلکہ پورے خطے میں تزویراتی توازن کے مستقبل کو بھی متاثر کریں گے۔