کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشانِ حیدر) کا 26 واں یومِ شہادت عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔
کیپٹن کرنل شیر خان شہید کارگل کے محاذ پر دفاع وطن میں 5 جولائی 1999 کو شہید ہوئے۔ مختلف شہروں میں شہید کی یاد میں تقاریب کا انعقاد کیا گیا۔۔
مرکزی تقریب کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے مزار پر صوابی میں منعقد کی گئی۔۔ کرنل شیر خان شہید کو شیر کارگل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ان کا تعلق 90 ویں پی ایم اے لانگ کورس سے تھا۔ پاس آؤٹ ہو کر سندھ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔
شہادت کے وقت وہ 12 ناردرن لائٹ انفنٹری میں خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ کارگل کے ہیرو کی جرات، قیادت اور بہادری ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
کرنل شیر خان شہید کو کارگل کی جنگ میں دلیری اور بہادری کی بنیاد پر پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا گیا۔ کرنل شیر خان شہید کی بہادری کی تعریف دشمن نے خود کی۔
بھارتی بریگیڈیئر پرتاب سنگھ نے شیر خان شہید کی بہادری کا اعتراف کیا ۔ کیپٹن کرنل شیر خان شہید کو نشانِ حیدر دیا جانا خوشی کا باعث تھا ۔۔
کیپٹن کرنل شیر خان شہید کی شہادت مادر وطن سے وفا، قربانی اور عزم کی روشن مثال ہے۔ شیر خان شہید کا نام تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا۔
دن کا آغاز مساجد میں قرآن خوانی اور دعاؤں کے ساتھ ہوا۔۔ علماء کرام نے شہید کے درجات کی سربلندی کے لئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا
علماء کرام نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ: ”وطن کی حفاظت کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے پاک فوج کے جوان عزت و احترام کے مستحق ہیں” شہداء کا لہو ہم پر قرض ہے۔۔پاکستان کے شہداء کی عظیم قربانیوں کی بدولت آج ہمارا ملک قائم و دائم ہے۔۔
زندہ قومیں اپنے محسنوں کے احسانات کو فراموش نہیں کرتیں۔۔
علماء کرام کا کہنا تھا کہ: ”جو قومیں اپنے شہداء کی تکریم نہیں کرتیں وہ ذلیل و رسوا ہو جاتی ہیں” شہید ہمیشہ زندہ ہوتے ہیں۔۔
علما کرام کا کہنا ہے کیپٹن کرنل شیر خان شہید قوم کا بہادر بیٹا تھا جو ہمیشہ ہر دل میں زندہ رہے گا۔۔قوم کے شہداء کی قربانیاں ملکی استحکام اور عظمت کی نشانیاں ہوتی ہیں جس پر قوم بجا طور پر فخر کرتی ہے