نئی دہلی:بھارتی حکومت نے عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز (REUTERS) کے آفیشل ایکس (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ تک ملک میں رسائی بلاک کر دی ہے۔ اس اچانک اقدام نے صحافتی حلقوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سوشل میڈیا صارفین کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
بھارت میں جب صارفین رائٹرز کا آفیشل ہینڈل کھولنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں یہ پیغام موصول ہوتا ہے کہ "@REUTERS کو قانونی مطالبے کی بنا ءپر بھارت میں روک دیا گیا ہے۔ تاہم، حکومت کی جانب سے اس اقدام کی کوئی واضح وجہ یا باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔
رائٹرز کا شمار دنیا کی سب سے بڑی، معتبر اور غیر جانب دار خبر رساں ایجنسیوں میں ہوتا ہے۔ اس کے اکاؤنٹ کو بلاک کرنا صرف ایک ٹیکنیکل قدم نہیں بلکہ اسے آزادی صحافت پر ایک سنجیدہ حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل بھارت میں متعدد پاکستانی صحافتی، سیاسی و سرکاری شخصیات اور اداروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک رسائی بھی محدود کی گئی تھی۔ اب بین الاقوامی میڈیا کو نشانہ بنانے کا رجحان سامنے آ رہا ہے، جس پر ماہرین حیرت اور تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
مودی سرکار پر پہلے ہی میڈیا پر غیر اعلانیہ کنٹرول اور سنسرشپ کے الزامات لگتے رہے ہیں، تاہم رائٹرز جیسے عالمی ادارے پر پابندی نے ان خدشات کو مزید تقویت دی ہے۔ ملک کے اندر "گودی میڈیا” کی مکمل تابعداری اور غیر جانبدار آوازوں پر قدغن کے بعد، بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو نشانہ بنانا بھارت میں میڈیا کی آزادی کے لیے سنگین خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔
صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے اس اقدام کو ایک غیر اعلانیہ ایمرجنسی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایک ایسا ادارہ جس کا عالمی اعتبار مسلمہ ہے، وہ بھی بھارت میں آزادانہ طور پر اپنا مؤقف پیش نہیں کر سکتا تو پھر عام شہری اور مقامی میڈیا کیسے محفوظ ہو سکتے ہیں۔
بھارت میں اظہار رائے کی آزادی پہلے ہی دباؤ میں تھی، لیکن اب حکومت کے ایسے اقدامات نے جمہوریت کی روح پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اس تمام صورتِ حال نے بین الاقوامی برادری کو بھی بھارت میں انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی کے مستقبل کے حوالے سے سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔