غزہ سٹی – اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جس میں انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ حماس اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے کسی معاہدے میں سنجیدہ نہیں۔
ٹرمپ کے یہ الزامات امریکہ کی ثالثی میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد سامنے آئے۔ یہ مذاکرات گزشتہ تین ہفتوں سے جاری تھے اور حال ہی میں امریکی خصوصی ایلچی سٹیو وٹ کوف کو واشنگٹن واپس بلا لیا گیا۔ اس اقدام کی وجہ مبینہ طور پر حماس کی "اخلاص کی کمی” بتائی گئی۔
حماس کے ترجمان طاہر النونو نے ٹرمپ کے بیان کو "حیران کن اور بے بنیاد” قرار دیتے ہوئے کہا”یہ تبصرے بالکل بے معنی ہیں، خاص طور پر جب کہ مذاکرات کی کئی فائلوں پر مثبت پیش رفت ہو چکی تھی۔ ہمیں کسی قسم کی خرابی سے متعلق باقاعدہ اطلاع بھی نہیں دی گئی۔”
انہوں نے واضح کیا کہ حماس مکمل جنگ بندی کے لیے سنجیدگی سے بات چیت کر رہی ہے اور مذاکرات کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
حماس کی سیاسی بیورو کے سینئر رہنما عزت الرشق نے بھی اس موقف کی تائید کی اور کہا کہ”مذاکرات میں ہم نے واضح لچک دکھائی ہے، مگر اصل رکاوٹ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت ہے جو مسلسل تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے اور بداعتمادی کو ہوا دے رہی ہے۔”
حماس کے رہنماؤں نے امریکہ پر اسرائیلی حکومت کی حمایت میں جانبداری کا مظاہرہ کرنے کا الزام عائد کیا۔ النونو کا کہنا تھا "اگر امریکہ واقعی ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے غیرجانبدار رویہ اپنانا ہوگا اور اسرائیل کو مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانا ہوگا۔”
واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازعے کو ختم کرنے کے لیے قطر، مصر اور امریکہ کی کوششیں تاحال ناکامی کا شکار ہیں۔ 22 ماہ سے جاری اس خونی تصادم میں ہزاروں فلسطینی شہری ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں جبکہ غزہ میں انسانی بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
سفارتی مبصرین کا ماننا ہے کہ تازہ الزامات اور مذاکراتی تعطل خطے میں امن کی راہ میں ایک اور سنگین رکاوٹ ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی طرف سے دونوں فریقوں پر مذاکرات کی میز پر واپس آنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے تاکہ ایک پائیدار جنگ بندی ممکن بنائی جا سکے۔