حکومت کو اپنے انتظامی اخراجات کم کرنے کا آئی ایم ایف کا دباؤ۔ 31 ہزار سرکاری ملازمین کو خدا حافظ کہہ دیا گیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کو بتایا گیا ہے کہ حکومت رواں مالی سال 31 ہزار سے زائد اسامیوں کو ختم کرے گی جس سے 30 ارب روپے سالانہ کی بچت ہو گی رائٹ سائزنگ کمیٹی نے خود مختار اداروں اور ریگولیٹری اداروں سے مشیروں کی تعداد، اسٹاف کی تفصیلات اور تنخواہوں کے ڈھانچے سے متعلق معلومات طلب کرلی ہیں
سینٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہونے والے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا۔۔۔
سیکرٹری کابینہ ڈویژن کامران علی افضل نے رائٹ سائزنگ پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وزیر اعظم کی ہدایت کی ہے کہ وفاقی حکومت کے حجم کو مختصر کر کے صرف بنیادی ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کی جائے اور دیگر اختیارات صوبوں کو منتقل کیے جائیں
سیکریٹری کابینہ نے واضح کیا کہ اس عمل سے ریگولیٹری اتھارٹیز متاثر نہیں ہوں گی البتہ ان اداروں سے مشیروں کی تعداد، اسٹاف کی تفصیلات اور تنخواہوں کے ڈھانچے سے متعلق معلومات طلب کی گئی ہیں۔ خودمختار اداروں پر رائٹ سائزنگ کے ممکنہ اثرات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے
انہوں نے مزید بتایا کہ اس ضمن میں قائم ’رائٹ سائزنگ کمیٹی کی کارکردگی کا مسلسل جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنایا جا سکے۔ سینیٹر شیری رحمٰن نے حکومتی اصلاحات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ایک طرف حکومت اخراجات کم کرنے کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف کابینہ کا حجم دوگنا کر دیا گیا ہے
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ رائٹ سائزنگ پالیسی سے سرکاری ملازمین کو سخت مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ان افراد کا کیا بنے گا جنہیں جبری ریٹائرمنٹ پر بھیجا جائے گا؟جس پر سیکرٹری کابینہ نے جواب دیاکہ یہ فیصلہ ناگزیر تھا اور اس سے ریاست کو نمایاں بچت حاصل ہو گی
ان کا کہنا تھا کہ غیر ضروری آسامیوں کے خاتمے سے پہلے ہی اخراجات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے جو حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔ نئے وزراء کی تقرریوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ نئے وزراء کی شمولیت وزارتوں کی مجموعی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد دے گی اور یہ بھی ادارہ جاتی اصلاحات کے ایجنڈے کا حصہ ہے
اجلاس میں اس امر پر زور دیا گیا کہ مالی نظم و ضبط اور انتظامی کارکردگی کے درمیان توازن قائم رکھنا اور اصلاحاتی اقدامات پر عمل درآمد آسان نہیں۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے کا محکمہ وار تفصیلی جائزہ لیا جائے گا اور آئندہ اجلاس میں مزید تبادلہ خیال کیا جائے گا۔