ویٹیکن سٹی میں پوپ فرانسس کی آخری رسومات کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی، جسے وائٹ ہاؤس نے "انتہائی نتیجہ خیز” جنگ بندی مذاکرات قرار دیا ہے۔
یہ ملاقات سینٹ پیٹرز باسیلیکا کے اندر ہوئی، جہاں دونوں رہنماؤں نے روس-یوکرین تنازعہ کے خاتمے پر تبادلہ خیال کیا۔
صدر زیلنسکی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ملاقات کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے گفتگو کو "علامتی” قرار دیا اور کہا کہ اگر مشترکہ نتائج برآمد ہوئے تو یہ ملاقات "تاریخی” بن سکتی ہے۔
فروری میں واشنگٹن میں تلخ ملاقات کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ ٹرمپ اور زیلنسکی آمنے سامنے ہوئے۔
اس سے قبل امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے ساتھ ملاقات میں ٹرمپ نے زیلنسکی کے امریکی امداد کے مطالبات پر شدید تنقید کی تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے روس-یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے ثالثی کی کوششوں میں تیزی لائی ہے۔
گزشتہ جمعہ کو ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے ماسکو میں صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ تین گھنٹے طویل ملاقات کی۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ”زیادہ تر اہم نکات پر اتفاق ہو گیا ہے، اور جنگ بندی معاہدہ اب بہت قریب ہے۔”
رائٹرز کے مطابق، دو مسودہ امن تجاویز سے اشارہ ملتا ہے کہ امریکہ موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنے کی تجویز دے رہا ہے، جس میں روس کے قبضے میں موجود علاقے، بشمول کریمیا، شامل ہیں۔
صدر زیلنسکی نے دوٹوک الفاظ میں کہا”ہماری پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تمام مقبوضہ علاقے یوکرین کا حصہ ہیں۔”
یورپی اتحادیوں نے بھی یوکرین کی مکمل خودمختاری پر کسی بھی سمجھوتے کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے دعویٰ کیا کہ روسی افواج نے کرسک کے علاقے سے یوکرینی فوجیوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے، تاہم کیف نے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔
ٹرمپ نے سچ سوشل پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا”ولادیمیر، روکو! ایک ہفتے میں 5,000 فوجی مر رہے ہیں۔ آئیے امن معاہدہ کر لیں!”
اگرچہ ٹرمپ امن مذاکرات کے حوالے سے پرامید ہیں، تاہم پابندیوں میں نرمی، یوکرین کی سکیورٹی کی ضمانتیں اور مقبوضہ علاقوں کی حیثیت جیسے اہم معاملات پر اختلافات بدستور موجود ہیں۔