اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ نے غزہ کی پٹی پر مکمل آپریشنل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی اسٹریٹجک منصوبے کی منظوری دے دی ہے، جو حماس کے خلاف طویل عرصے سے جاری فوجی مہم کو ایک نئے مرحلے میں داخل کرنے کا عندیہ دیتا ہے۔
یہ فیصلہ متعدد بند کمرہ بریفنگز اور سینئر قیادت کے مابین مشاورت کے بعد سامنے آیا، جس کے تحت اسرائیلی افواج (IDF) کو حماس کے تمام عسکری بنیادی ڈھانچے کو مکمل طور پر ختم کرنے اور غزہ پر مرحلہ وار کنٹرول قائم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
دفاعی حکام کے مطابق، یہ منصوبہ اسرائیلی تاریخ میں غزہ کے خلاف سب سے بڑی اور جامع مہم ہو گی، جس میں عسکریت پسندوں کے مضبوط ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گااہم شہری علاقوں کو محفوظ بنایا جائے گااور راکٹ لانچنگ صلاحیتوں کو مکمل طور پر ختم کیا جائے گا۔
اگرچہ آپریشن کی کوئی باضابطہ تاریخ سامنے نہیں آئی، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ مشرق وسطیٰ کے دورے کے بعد تیزی آ سکتی ہے۔
منظور شدہ منصوبے میں جنگ کے بعد کی حکمرانی، انسانی امداد کی نگرانی، اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کے فریم ورک بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اسرائیل نے اس اقدام کو قومی سلامتی کی طویل مدتی ضرورت قرار دیا ہے۔
رائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر نے اس منصوبے کو "دہشت گردی کو اس کی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا تاریخی موقع” قرار دیا، جبکہ بعض معتدل وزراء نے بین الاقوامی ردعمل اور انسانی جانوں کے ضیاع پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
میدان میں سرگرمیوں کے پیش نظر، IDF ہائی الرٹ پر ہے اور غزہ کے اطراف میں فوجی تعیناتی میں نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ شہری دفاعی اداروں نے سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کو تیاری کے ہدایات جاری کر دی ہیں، جو ممکنہ تصادم کی شدت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔