اسرائیل نے 10 ہفتے کی مکمل ناکہ بندی کے بعد غزہ میں خوراک کی محدود فراہمی کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ یہ فیصلہ شدید بین الاقوامی دباؤ اور غزہ میں ممکنہ قحط کے خطرے کے پیش نظر کیا گیا ہے، جہاں لاکھوں فلسطینی خوراک، ادویات اور دیگر بنیادی اشیاء کی شدید قلت کا سامنا کر رہے تھے
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا "آئی ڈی ایف کی سفارشات اور آپریشنل ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے، غزہ میں انسانی تباہی کو روکنے کے لیے خوراک کی محدود فراہمی کی اجازت دی جا رہی ہے، جب کہ حماس کے خلاف فوجی کارروائیاں جاری رہیں گی۔”
یہ بیان اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ امداد صرف "بنیادی مقدار” تک محدود ہوگی، اور اسے مکمل جنگ بندی کا اشارہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
مارچ کے اوائل میں اسرائیل نے غزہ پر مکمل ناکہ بندی عائد کی تھی، جس کے نتیجے میںخوراک، ایندھن اور ادویات کی ترسیل مکمل طور پر بند ہو گئی اقوام متحدہ اور دیگر اداروں نے قحط کے خطرے کی شدید وارننگ دی ورلڈ فوڈ پروگرام اور ورلڈ سینٹرل کچن جیسی ایجنسیاں بھی اشیائے خورونوش سے محروم ہو گئی کیمپوں، اسکولوں اور اسپتالوں میں کمیونٹی کچن بند ہو گئے
تازہ سبزیاں، گوشت، اور پانی جیسے بنیادی وسائل غزہ میں ناپید ہو چکے ہیں، اور عوام طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر تھوڑا سا کھانا حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔
اسرائیلی حکام کے مطابق، محدود امداد اُن پہلے سے قائم انسانی راہداریوں کے ذریعے داخل کی جائے گی، جب تک کہ ایک نیا تقسیم کا نظام متعارف نہیں کرایا جاتا۔
یہ امدادی فیصلہ ایسے وقت آیا ہے جب اسرائیلی ڈیفنس فورس (IDF) نے غزہ کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں نئی زمینی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ ان کارروائیوں کو حماس کے "بنیادی ڈھانچے” کو ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے، جسے IDF نے "آپریشنل کنٹرول حاصل کرنے کی حکمت عملی” کا نام دیا ہے۔اقوام متحدہ، یورپی یونین، عرب لیگ اور متعدد ممالک نے خوراک کی مکمل بحالی اور مستقل جنگ بندی پر زور دیا ہے۔اسرائیل کی حالیہ نرمی کو علامتی مگر ناکافی اقدام قرار دیا جا رہا ہے، جب تک کہ طویل المدتی انسانی حل نہ نکالا جائے۔