بھارت میں فلسطینیوں کی جدوجہد اور مزاحمت کو اجاگر کرنے والی ایک غیرمعمولی آرٹ نمائش "جسم کو کہتے ہوئے فلسطین” (Palestine as the Body in Question) کا آغاز ہو گیا ہے۔ جواہر بھون میں جاری یہ نمائش ہندوستان کی سرزمین پر فلسطینی کاز کی اب تک کی سب سے بڑی اور بااثر بصری نمائش تصور کی جا رہی ہے، جو 31 مئی 2025 تک جاری رہے گی۔
نمائش میں فلسطین، ہندوستان، اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے 80 سے زائد فنکاروں کے 140 فن پارے شامل کیے گئے ہیں، جو مزاحمت، شناخت، نقل مکانی اور عالمی یکجہتی جیسے موضوعات کو اجاگر کرتے ہیں۔ نمائش میں پینٹنگز، تنصیبات، گرافٹی، تصویریں، اور ڈیجیٹل پرنٹس شامل ہیں—ہر ایک فن پارہ فلسطینی عوام کی زندگی، درد، اور وقار کی ایک منفرد کہانی بیان کرتا ہے۔
نمایاں فن پارے: غزہ کی تباہی، مزاحمت اور امید
نمائش میں نمایاں فن پاروں میں شامل ہیں:
- سلیمان منصور کا "سرچنگ فار لائف” — غزہ میں تباہی کے ملبے میں زندگی کی تلاش کرتی خواتین کی عکاسی
- عبدالرحمن کتانانی کی "دی ویو” — خاردار تاروں کی ایک بڑی لہر، بحیرہ غزہ کی علامتی نمائندگی
- میری توما کی "ہومس فار دی ڈیسمبوڈیڈ” — بے گھر فلسطینیوں کے لیے ایک فنکارانہ یادگار
غزہ اور مغربی کنارے میں جاری تشدد، ناکہ بندی اور نقل و حرکت پر پابندیوں کے باعث کئی فلسطینی فنکار اپنے اصل فن پارے نمائش کے لیے نہ بھیج سکے۔ تاہم، منتظم ادارے صفدر ہاشمی میموریل ٹرسٹ (SAHMAT) نے ان کی تخلیقات کو ڈیجیٹل پرنٹس کی صورت میں نمائش کا حصہ بنا کر ان آوازوں کو دنیا کے سامنے لایا۔
SAHMAT کے رکن سہیل ہاشمی نے افتتاحی موقع پر کہا”دنیا کو نہتے فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافی کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح دنیا نے کبھی ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی حمایت کی تھی، اب ہمیں فلسطین میں انصاف کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔”