دی ہیگ/پیرس — فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے خبردار کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ بندی "انتہائی نازک اور غیر مستحکم” ہے، اور اس تناظر میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق نئے سفارتی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر زور دیا ہے۔
نیدرلینڈز میں ہونے والے نیٹو سربراہی اجلاس کے بعد — جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شریک ہوئے — میکرون نے امید ظاہر کی کہ جنگ بندی قائم رہے گی، تاہم انہوں نے کہا کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے سفارتی کوششیں ناگزیر ہیں۔”ہمیں ایران، امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ جوہری مسئلے پر سفارتی اور تکنیکی کام کو دوبارہ شروع کرنا ہوگا،” میکرون نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا۔ "آنے والے ہفتوں میں ہمیں اس مسئلے پر فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے۔”
فرانسیسی صدر بدھ کو پیرس میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے سربراہ سے اہم ملاقات کر رہے ہیں۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب ایران کی پارلیمنٹ نے ایک بل کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت IAEA کے ساتھ تعاون معطل کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
فرانس سمیت کئی یورپی ممالک ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو خطے کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ جنگ بندی ایک موقع ہے، لیکن یہ صرف اس صورت میں دیرپا ہو سکتی ہے جب ایران کا جوہری پروگرام شفاف نگرانی میں واپس لایا جائے اور فریقین ایک بار پھر سفارتی میز پر آئیں۔
فرانس، جرمنی اور برطانیہ پہلے ہی جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن (JCPOA) کے فریم ورک کے تحت ایران سے مذاکرات کا حامی رہا ہے، جس سے امریکہ 2018 میں الگ ہو گیا تھا۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے IAEA کے ساتھ مکمل تعاون معطل کر دیا، تو یہ عالمی برادری کے ساتھ مزید تصادم کا سبب بن سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف جوہری تناؤ میں اضافہ ہوگا بلکہ اسرائیل اور دیگر علاقائی ممالک کی جانب سے مزید سخت اقدامات کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔