واشنگٹن – امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز ایک تاریخی ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرتے ہوئے شام پر عائد طویل امریکی پابندیاں ختم کر دیں، جس سے جنگ زدہ شام کی تعمیر نو، معاشی بحالی اور عالمی مالیاتی نظام میں واپسی کی راہیں کھل گئی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے اعلان کیا کہ یہ فیصلہ شام میں "اقتصادی ترقی کے نئے باب کا آغاز” کرے گا۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ پابندیوں کے خاتمے کے باوجود، امریکہ شام میں
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث افراد, منشیات اسمگلروں, کیمیائی ہتھیاروں کے صارفین, داعش اور ایرانی حمایت یافتہ پراکسی گروہوں کے خلاف سخت کارروائیاں جاری رکھے گا۔
واضح رہے کہ شام کے سابق صدر بشار الاسد کو گزشتہ دسمبر میں حزب اختلاف کی افواج نے اقتدار سے ہٹا دیا تھا، جس کے بعد صدر احمد الشارع کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم ہوئی۔
شام کے وزیر خارجہ اسد الشیبانی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس” پر ٹرمپ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا”یہ اقدام شام کی اقتصادی بحالی اور بین الاقوامی برادری سے دوبارہ روابط کی راہ ہموار کرے گا۔”
ٹرمپ نے سب سے پہلے مئی میں ریاض میں صدر احمد الشارع کے ساتھ ملاقات میں ان پابندیوں کو ختم کرنے کا عندیہ دیا تھا، جسے واشنگٹن میں خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔
شام کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی تھامس بیرک نے فیصلے کو "ذمہ دارانہ اور محتاط اقدامات پر مبنی” قرار دیا اور کہا”شام کو ایک دوسرا موقع ملنا چاہیے، اور یہ حکم نامہ وہ موقع فراہم کرتا ہے۔”
وائٹ ہاؤس فیکٹ شیٹ کے مطابق امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کو ہدایت دی گئی ہے کہ شام کو "ریاستی دہشت گردی کے سرپرست” کی فہرست سے نکالنے پر غور کریں۔حیات تحریر الشام جیسے گروہوں کی دہشت گرد فہرست پر موجودگی کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ شام کی جانب سے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے, غیر ملکی جنگجوؤں کی واپسی روکنے, فلسطینی عسکریت پسندوں کی بے دخلی اور دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے جیسے اقدامات کی پیش رفت کا مسلسل جائزہ لیتی رہے گی۔
ٹرمپ کے مئی کے اعلان کے بعد، امریکی محکمہ خزانہ نے شام کی عبوری حکومت، مرکزی بینک اور سرکاری اداروں کے ساتھ مالی لین دین کی اجازت دینے والا خصوصی لائسنس بھی جاری کر دیا ہے۔