لیما — پیرو کے نئے صدر ہوزے جیری نے ملک گیر احتجاج کے دوران ایک شہری کی ہلاکت کے باوجود اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ مظاہرے بنیادی طور پر جنرل زیڈ کارکنوں کی قیادت میں ہوئے، جن میں صدر اور قانون سازوں کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا۔
جمعرات کے روز ہونے والے پرتشدد احتجاج میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جن میں 80 پولیس اہلکار اور 10 صحافی شامل ہیں۔ حکام نے تصدیق کی ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ شہری کو گولی کس نے ماری۔
صدر جیری نے دارالحکومت لیما میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا "میری اولین ذمہ داری ملک میں استحکام برقرار رکھنا ہے۔ یہ میرا فرض اور میرا عزم ہے۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ پارلیمنٹ سے خصوصی اختیارات کی درخواست کریں گے تاکہ جرائم اور بدعنوانی کے بڑھتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹا جا سکے۔
یہ احتجاج ابتدائی طور پر ایک ماہ قبل شروع ہوئے جب نوجوان کارکنوں نے بہتر اجرت اور پنشن کے حق میں آواز اٹھائی۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ مظاہرے وسیع تر سیاسی مطالبات میں تبدیل ہو گئے، جن میں بدعنوانی، جرائم اور حکومتی نااہلی کے خلاف نعرے شامل تھے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں برسوں سے جاری سیاسی عدم استحکام اور بار بار بدلتی حکومتوں سے مایوس ہیں۔
بدھ کے روز کانگریس کی عمارت کے قریب مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ بعض مظاہرین نے صدر جیری کی علامتی گڑیا نذرِ آتش کی، جب کہ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں استعمال کیں۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں نوجوانوں کو پیرُو کے قومی پرچم لہراتے اور "جمہوریت بحال کرو” کے نعرے لگاتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ہوزے جیری نے 10 اکتوبر 2025 کو اقتدار سنبھالا، اور وہ گزشتہ دس برسوں میں ملک کے ساتویں صدر ہیں — ایک حقیقت جو پیرو میں جاری سیاسی بحران اور عوامی بے چینی کو اجاگر کرتی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جیری کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج عوامی اعتماد بحال کرنا اور اقتصادی عدم مساوات کو کم کرنا ہوگا۔
عالمی برادری، خصوصاً امریکہ اور یورپی یونین نے پرامن مذاکرات اور انسانی حقوق کے احترام پر زور دیا ہے۔ بین الاقوامی مبصرین نے پیرو کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر احتجاج پر قابو نہ پایا گیا تو ملک مزید سیاسی افراتفری میں جا سکتا ہے۔

