ایران نے پیر کے روز اپنے فضائی دفاع کے ذریعے اسرائیل کا ایک اور F-35 اسٹیلتھ لڑاکا طیارہ تبریز کے اوپر مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے، جو کہ 13 جون کو شروع ہونے والے فضائی تنازعے میں تباہ ہونے والا چوتھا طیارہ ہے۔ یہ واقعہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو نئی بلندیوں پر لے گیا ہے۔
مشرقی آذربائیجان کرائسز منیجمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل ماجد فرشی نے کہا کہ ایران کی ایئر ڈیفنس فورسز نے تبریز شہر کے اوپر تین فضائی خطرات کو ناکام بنایا، جن میں اسرائیلی جنگی ڈرونز اور مائیکرو ایئر وہیکلز (MAVs) شامل تھے۔ماجد قریشی کا اپنے بیان میں کہناتھاکہ "آج تبریز کی فضائی حدود میں تین مختلف سمتوں سے حملے کی کوشش کی گئی، جن میں ایک F-35 اور دو ڈرون شامل تھے۔ ہمارے سسٹمز نے کامیابی سے سب کو روک کر تباہ کر دیا۔”
ایران کا دعویٰ ہے کہ یہ کاروائی اس کی نئی اینٹی اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کی کامیابی کی عکاسی کرتی ہے، جو امریکی ساختہ F-35 جیسے جدید طیاروں کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ طیارہ اسرائیل کے جدید ترین فضائی اثاثوں میں سے ایک ہے، جسے عام طور پر ناقابلِ سراغ سمجھا جاتا ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق، مسلسل F-35 طیاروں کا گرنا اسرائیلی فضائی بالادستی کے بیانیے پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔
یہ نیا واقعہ ان فضائی جھڑپوں کی ایک کڑی ہے جو 13 جون کو اسرائیل کی جانب سے ایران میں مبینہ طور پر جوہری تنصیبات، فوجی اڈوں اور شہری علاقوں پر حملوں کے بعد شروع ہوئی۔
ایران نے ان حملوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور بلا جواز جارحیت قرار دیا ہے، اور اس کے بعد سے فیصلہ کن دفاعی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔
ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ تہران، تبریز، اصفہان سمیت تمام تزویراتی شہروں میں فضائی دفاعی نظام مکمل الرٹ پر ہے۔ خاص طور پر Bavar-373 اور Khordad-15 جیسے میزائل سسٹمز کو متحرک حالت میں رکھا گیا ہے۔
F-35 طیارہ جو کہ جدید ترین ریڈار چوری ٹیکنالوجی، ہدف شناسی، اور جنگی نیٹ ورکنگ کے لیے جانا جاتا ہے، اسرائیل کے دفاعی نظام کا فخر سمجھا جاتا ہے۔