ڈبلن — آئرلینڈ میں صدارتی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق بائیں بازو کی آزاد امیدوار کیتھرین کونولی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے نئی صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا۔
ابتدائی ووٹوں کی گنتی میں واضح برتری کے بعد اُن کی حریف ہیدر ہمفریز نے شکست تسلیم کر لی۔ ہمفریز نے کہا، "کیتھرین ہم سب کے لیے صدر ہوں گی، اور میں اُن کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتی ہوں۔”
غیر سرکاری نتائج کے مطابق تقریباً دو تہائی ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر کونولی کو 64 فیصد ووٹ ملے، جبکہ ہمفریز 29 فیصد پر رہیں۔ تیسرے امیدوار جم گیون نے 7 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
68 سالہ کونولی کی جیت کو آئرلینڈ میں بائیں بازو کی سیاست کے ابھار اور حکومت مخالف جذبات کی بڑی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے نوجوان ووٹرز، سماجی انصاف کے حامیوں اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد سے زبردست حمایت حاصل کی۔
انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح تقریباً 40 فیصد رہی، جبکہ 13 فیصد ووٹ ضائع ہوئے — جو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں، اور عوامی مایوسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
کیتھرین کونولی نے کامیابی کے بعد خطاب میں کہا "میں ہر اُس شخص کی شکرگزار ہوں جس نے میری حمایت کی یا نہیں کی۔ میں سب کے خدشات اور امیدوں کو سمجھتی ہوں۔”
کونولی نے وعدہ کیا کہ وہ برابری، غیرجانبداری اور سماجی انصاف کے اصولوں پر قائم رہیں گی۔ وہ مغربی ممالک کے عسکری عزائم پر تنقید اور فلسطین کی کھل کر حمایت کے لیے بھی جانی جاتی ہیں۔
کونولی ایک سابق ماہرِ نفسیات اور بیرسٹر ہیں۔ اُن کی مہم نے نوجوانوں میں زبردست مقبولیت حاصل کی، خاص طور پر سوشل میڈیا پر اُن کے ویڈیوز اور پیغامات وائرل ہوئے۔ معروف آئرش فنکاروں اور موسیقاروں نے بھی اُن کی حمایت کی۔
نقادوں کا کہنا ہے کہ اُن کے سخت مؤقف مغربی ممالک کے ساتھ آئرلینڈ کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اُن کی جیت عوام میں تبدیلی کی خواہش کو ظاہر کرتی ہے۔
کیتھرین کونولی اب سبکدوش ہونے والے صدر مائیکل ڈی ہگنز کی جگہ Áras an Uachtaráin (صدارتی رہائش گاہ) میں سات سالہ مدت کے لیے فرائض انجام دیں گی۔

