1964 میں بھارتی فضائیہ میں شامل ہونے والے سوویت یونین کے مِگ 21 طیارے جنگی پائلٹس کی موت کی علامت بن چکا ہیں ۔
بھارتی فضائیہ میں اس کی شمولیت سے اب تک مِگ 21 طیارہ 400 سے زائد حادثات کا شکار ہو اہے جن میں 200 سے زیادہ بھارتی پائلٹ اور 60 سے زائد عام شہری اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس خراب ریکارڈ کے باعث بھارتی پائلٹس میں یہ طیارے ’فلائنگ کوفِن‘ یا ’اڑتے تابوت‘ کے نام سے مشہور ہیں۔
بھارتی فضائیہ کے بارہا اصرار پر مودی حکومت نے فرانس سے 26 رافیل طیارے خریدنے کا معاہدہ کر لیا ہے، اس معاہدے کی کل لاگت تقریباً 630 ارب بھارتی روپے یعنی 7.4 ارب امریکی ڈالر ہے۔ یہ طیارے بھارتی بحریہ کے لیے خریدے جا رہے ہیں تاہم بھارتی فضائیہ کے پاس بھی فرانس سےخریدے گئے کم و بیش 36 رافیل طیارے موجود ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بھارت کو اتنے مہنگے طیاروں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اس کا جواب سیدھا سا ہے، بھارتی فضائیہ مطلوبہ 42 اسکواڈرنز کے بجائے صرف 31 اسکواڈرنز کے ساتھ کام کر رہی ہے، چین اور پاکستان جیسے ہمسایہ ممالک سے کشیدہ تعلقات کے پیش نظر طیاروں کی یہ کمی بھارتی افسران کے لیے ایک مستقل دردِ سر بنی ہوئی ہے۔
طیاروں کی اس کمی کی وجہ سے بھارتی فضائیہ پرانے جہازوں کو ڈی کمیشن کرنے سےبھی گریز رہی ہے اور اس کے بیڑے میں آج تک سویت دور کے پرانے مِگ 21 جیسے بدنام طیارے بھی آپریٹ کررہے ہیں۔
یہ فلائنگ کوفن عالمی سطح پر اس وقت بھی خبروں کی زینت بنا جب 2019 میں پاک فضائیہ کے آپریشن سوئفٹ ریٹورٹ کے دوران بھارتی ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کا مگ 21 پاکستانی فضا میں مار گرایا گیا جس کے بعد ابھینندن نے پاکستان میں ’فنٹاسٹک‘ چائے نوش کی۔
تو آخر اس قدر بدنام اور اس قدر پرانا طیارہ آج بھی بھارتی فضاؤں میں کیوں اڑرہا ہے؟
اس کی وجہ نئی جنریشن کے جہازوں کی تیاری میں تاخیرہے۔ بھارتی ساختہ ’تیجس MK1A‘ طیاروں کا پہلا اسکواڈرن جولائی 2024 میں تیار ہونا تھا، مگر انجن کی فراہمی میں تاخیر نے بھارتی دفاعی صنعت اور خاص طور پر ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ کا پول کھول دیا۔