اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستیں سنتے ہوئے جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ تحریک انصاف تو کیس میں فریق بھی نہیں تھی پھر نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انتخابی نشان نہ ہونے سے سیاسی جماعت ختم نہیں ہوتی۔ ہم نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ لوگوں کو حق رائے دہی سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے پہلی مرتبہ براہ راست نشر کی جانے والی سماعت میں مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستیں سنیں۔
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے درخواست گزار وکیل مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ مجھے سمجھنے میں مسئلہ آرہا ہے، سنی اتحاد کونسل تو ایک نشست بھی نہیں جیت سکی تھی، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حامد رضا نے تو خود اپنی جماعت سے الیکشن نہیں لڑا، تحریک انصاف تو فریق بھی نہیں تھی پھر نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں 39 لوگوں کو تحریک انصاف کا ڈیکلیئر کیا گیا، 41 لوگوں کو وقت دیا گیا وہ 15 دن میں کسی سیاسی جماعت کو جوائن کریں، پی ٹی آئی اس کیس میں فریق نہیں تھی، متفرق درخواست کے ذریعے فریق بنی، متفرق درخواست میں کہا گیاتھا کہ وہ صرف عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ اپنے اقلیتی فیصلے میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اس عدالت میں درخواست دائر نہیں کی، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ دوران سماعت پی ٹی آئی نے فریق ثالت کے طور پر معاونت کی درخواست دی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے کوئی نشست نہیں جیتی تھی، مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ وہ نشست نہیں جیتے تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں وجوہات لکھی گئی ہیں کہ پی ٹی آئی فریق نہیں تھی تو کیسے انہیں نشستیں دی گئیں، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں لکھا گیا کہ اس عدالت کے سامنے تکنیکی نوعیت کی غلطی رکاوٹ نہیں بنے گی، یہ عدالت مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرتے ہوئے نشستیں پی ٹی آئی کو دیتی ہے۔ اسی وجہ سے جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے لکھا کہ تحریک انصاف ہمارے سامنے فریق نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ میرے مطابق الیکشن کے دوران پریزائیڈنگ افسران نے آئین کے تحت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی، ہمارے سامنے آئی اپیل انتخابات میں غلطیوں کا تسلسل تھی، ہم نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ لوگوں کو حق رائے دہی سے محروم نہیں رکھا جاسکتا، کوئی ہمارے سامنے ہو یا نہیں پریزائیڈنگ افسران کی غلطی عوام کو کیسے دی جاسکتی ہے؟ پریزائیڈنگ افسران نے فارم 33 درست طریقے سے نہیں بنائے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ عدالت ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کے دائرہ اختیار میں تھی، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا کیس بنیادی دائرہ اختیار جو کہ 184تین کا ہے میں نہیں سنا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ عدالت مکمل انصاف کا اختیار کس حد تک استعمال کر سکتی ہے، انتخابی نشان نہ ہونے سے سیاسی جماعت ختم نہیں ہوتی، سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑتی امیدوار لڑتے ہیں، انتخابی نشان عوام کی آگاہی کیلئے ہوتاہے۔
جج آئینی بینچ نے کہا کہ انتخابی نشان نہ ہونے سے کسی کو انتخابات سے نہیں روکا جاسکتا، سنی اتحاد کونسل کے بجائے آزاد امیدوار اگر پی ٹی آئی میں رہتے تو آج مسئلہ نہ ہوتا، سنی اتحاد کونسل اپنے انتخابی نشان پر الیکشن لڑتی تو پھر بھی مسئلہ نہ ہوتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میں نے 39 لوگوں کو تحریک انصاف کا ڈکلیئر کرکے نشستیں دینے کا فیصلہ دیا، کوئی فارمولا نہیں تھا کہ درمیان کا راستہ چنا جائے، میں نے ساری رات جاگ کر دستیاب ریکارڈ کا جائزہ لیا، پارٹی سرٹیفکیٹ اور وابستگی کے خانے میں 39 نے پی ٹی آئی لکھا تھا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں تھا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ ریکارڈ عدالت نے الیکشن کمیشن سے منگوایا تھا۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں 39 لوگوں کو تحریک انصاف کا رکن ڈکلیئر کیا گیا، سپریم کورٹ کا مکمل انصاف کا اختیار بھی مشروط ہے، سپریم کورٹ کے سامنے جو معاملہ ہو اسی میں مکمل انصاف کر سکتی ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ معاملہ سامنے ہونا کافی ہے،متعلقہ پارٹی بھی سامنے ہو یہ آئین میں نہیں۔
جسٹس شاہد بلال نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق تھی؟ کیا جو جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں دی جاسکتی ہیں؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ جو سیاسی جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں نہیں مل سکتیں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی کہا تھا پی ٹی آئی فریق نہیں تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے اس وقت الیکشن کمیشن کا کردار بھی دیکھنا تھا، میرے مطابق الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تھی، نشستیں دینا نہ دینا الگ مسئلہ ہے،الیکشن کمیشن کا کردار بھی دیکھنا تھا، اگر آپ کی دلیل بات مان لیں تو پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں تھا۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت تک مخصوص ارکان کے نوٹی فیکیشن جاری نہیں ہوئے تھے، عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ آئین و قانون سے برعکس فیصلہ ناقص ہوگا۔ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ اس غلطی کو درست کیا جائے۔ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر اکثریتی ججز یہ سمجھیں کہ فیصلہ درست ہے تو کیا ہوگا؟ جس پر وکیل نے کہا کہ تو ایسی صورت میں نظرثانی درخواست مسترد ہو جائے گی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا، عدالت کے سامنے الیکشن کمیشن کا نوٹی فکیشن تھا، مخدوم علی خان نے کہا کہ نوٹی فکیشن سے کوئی متاثر ہوتا تو عدالت کو نوٹس کرنا چاہیے تھا، عدالتی فیصلے میں آرٹیکل 225 کا ذکرتک نہیں ہے، آرٹیکل225کے تحت کسی الیکشن پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ تو مخصوص نشستوں کا معاملہ تھا، مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی پر الاٹ ہوتی ہیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی فہرستیں الیکشن سے قبل جمع ہوتی ہیں، کاغذات نامزدگی میں غلطی کا معاملہ ٹریبونل کے پاس جاتا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کر لیے جبکہ وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے اپنے دلائل تحریری طور پر جمع کرادیے ہیں۔ وکیل پی پی نے کہا کہ پیپلز پارٹی بھی کل تک اپنے تحریری دلائل جمع کرادے گی، بعد ازاں کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔