یوکرین کے غیر ملکی انٹیلی جنس کے سربراہ اولیہ ایواشینکو نے انکشاف کیا ہے کہ چین نے کم از کم 20 روسی فوجی مینوفیکچرنگ پلانٹس کو اہم جنگی مواد فراہم کیا ہے، جس میں بارود، اسپیشل کیمیکلز، ٹولنگ مشینیں اور دیگر دفاعی اجزاء شامل ہیں۔
ایواشینکو نے یہ بیان سرکاری نیوز ایجنسی یوکرینفارم کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا۔ ان کے مطابق، یوکرائنی انٹیلیجنس نے 2024 اور 2025 کے دوران روس اور چین کے درمیان دفاعی تعاون کے کم از کم پانچ واقعات دستاویز کیے ہیں، جن میں طیاروں سے متعلق پرزے، ٹیکنیکل ڈاکیومنٹس اور حساس سپلائیز کی ترسیل شامل ہے۔
یہ انکشاف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بیجنگ بارہا دعویٰ کرتا رہا ہے کہ وہ روس-یوکرین جنگ میں غیر جانبدار ہے۔ تاہم، کیف کا کہنا ہے کہ انٹیلیجنس ڈیٹا اس بیانیے کی سخت نفی کرتا ہے۔
یاد رہے کہ صدر ولادیمیر زیلنسکی نے حال ہی میں چین پر براہِ راست روس کو فوجی امداد فراہم کرنے کا الزام لگایا تھا، جسے بیجنگ نے "بے بنیاد” قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ اس کے بعد یوکرین نے تین چینی کمپنیوں پر پابندیاں بھی عائد کی تھیں۔
یوکرائنی حکام کے مطابق، چین سے روس کو خصوصی کیمیکل کی چھ بڑی ترسیل بھی ریکارڈ کی گئی ہیں، جو کہ ممکنہ طور پر اسلحہ سازی یا میزائل فیول میں استعمال ہو سکتے ہیں، اگرچہ مخصوص تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ انکشافات روس کے فوجی صنعتی کمپلیکس کو بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا شکار کرنے کی مغربی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔ چین کی مبینہ مداخلت اب امریکہ، یورپی یونین اور نیٹو کی توجہ کا مرکز بن سکتی ہے، جو بیجنگ سے شفافیت اور وضاحت کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔