30 سے زائد ممالک کی شمولیت، ہانگ کانگ میں بین الاقوامی ثالثی کا نیا پلیٹ فارم قائم
چین نے بین الاقوامی تنازعات کو عدالتی کارروائی کے بجائے پرامن اور افہام و تفہیم پر مبنی طریقے سے حل کرنے کی عالمی کوششوں کو فروغ دیتے ہوئے بین الاقوامی تنظیم برائے ثالثی (IOMed) کا باضابطہ آغاز کر دیا۔ ہانگ کانگ میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں 30 سے زائد ممالک — جن میں پاکستان، انڈونیشیا، بیلاروس، کیوبا اور دیگر شامل ہیں — نے اس نئے ادارے میں شمولیت اختیار کی۔
IOMed کا قیام دنیا بھر میں سرحد پار تنازعات کو رضاکارانہ ثالثی کے ذریعے حل کرنے کے مقصد کے تحت عمل میں آیا ہے۔ یہ ادارہ روایتی عدالتی فورمز جیسے بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کے برعکس، اتفاق رائے، سفارت کاری اور غیر جانبداری پر مبنی ثالثی کو فروغ دیتا ہے۔
چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”IOMed چین کے اُس عالمی وژن کی عکاسی کرتا ہے جو تصادم کی بجائے تعاون پر مبنی ہے۔ یہ تنظیم ایک ایسا فورم فراہم کرے گی جہاں ریاستیں، ادارے اور افراد مہنگی قانونی لڑائیوں کے بجائے پرامن طریقے سے اپنے اختلافات ختم کر سکیں گے۔”
IOMed کا صدر دفتر ہانگ کانگ میں واقع ہے، جو اپنے "ایک ملک، دو نظام” فریم ورک، بین الاقوامی قانونی معیارات اور مالیاتی و تجارتی مرکز کے طور پر شہرت کی بدولت ثالثی کے لیے ایک موزوں مقام سمجھا جا رہا ہے۔یہ ادارہ چینی اور مشترکہ قانون (Common Law) کے امتزاج سے عالمی صارفین کو منفرد قانونی سہولتیں فراہم کرے گا۔
IOMed کی اولین ترجیحات میں شامل ہے کہ کم لاگت میں عالمی ثالثی خدمات کی فراہمی ،افراد، حکومتوں اور اداروں کے درمیان تنازعات کا فوری، پرامن اور قابل عمل حل اور اقوام متحدہ کے چارٹر سے ہم آہنگ رہتے ہوئے عالمی ہم آہنگی کو فروغ دینا
تنظیم 2025 کے آخر تک مکمل آپریشنل ہونے کی توقع رکھتی ہے، اور یہ قدم نہ صرف چین کے بڑھتے ہوئے عالمی کردار کو واضح کرتا ہے بلکہ ایک زیادہ ہم آہنگ اور باہمی تعاون پر مبنی عالمی نظم کی تشکیل کی سمت بھی پیش رفت ہے۔