دمشق — شمال مغربی شام میں شامی حکومت اور فرانسیسی نژاد شدت پسند عمر دیابی کی قیادت میں قائم جہادی گروپ "فرقت الغرابہ” کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
جمعرات کو اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے حکومتی اور عسکری ذرائع نے تصدیق کی کہ بدھ کے روز شامی افواج نے حریم کے علاقے میں گروپ کے کیمپ کا محاصرہ کیا تھا، جس کے بعد فریقین کے درمیان ابتدائی جھڑپوں کے بعد امن معاہدہ وجود میں آیا۔ یہ جھڑپیں صدر بشارالاسد کی دسمبر میں معزولی کے بعد شامی فورسز اور جہادیوں کے درمیان پہلی بڑی کشیدگی تھیں۔
ذرائع کے مطابق، معاہدے کے تحت شامی فوج نے بھاری ہتھیاروں کو پیچھے ہٹانے پر اتفاق کیا، جبکہ دیابی کے زیرِ قبضہ کیمپ میں داخل ہونے کے لیے حکومتی فورسز کو اجازت دی گئی۔ ایک مقامی سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا “جنگ بندی کا مقصد مزید خونریزی روکنا اور حکومت کو کیمپ میں باضابطہ طور پر داخل ہونے کی اجازت دینا تھا۔”
اے ایف پی کے مطابق، جنگ بندی کے تحریری معاہدے میں دیابی کے خلاف مبینہ اغوا کے الزامات پر فوجداری تحقیقات شروع کرنے کا بھی ذکر موجود ہے۔
جمعرات کے روز مقامی حکام اور فرانسیسی جہادی ذرائع نے تصدیق کی کہ جنگ بندی پر مکمل عمل درآمد جاری ہے۔
شامی حکومت کی نئی حکمتِ عملی
شام کے نئے عبوری صدر احمد الشارع، جو ماضی میں القاعدہ کی شامی شاخ سے وابستہ رہ چکے ہیں، اب اعتدال پسند پالیسی کے ذریعے ملک میں استحکام لانے اور بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کے دورِ قیادت میں حکومت کی ترجیحات میں سے ایک غیر ملکی جنگجوؤں کا خاتمہ اور سیکیورٹی بحالی ہے۔ ذرائع کے مطابق، خانہ جنگی کے دوران ہزاروں غیر ملکی جنگجو شام میں داخل ہوئے، جنہوں نے ملک کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ پیدا کیا۔
عمر دیابی کون ہے؟
عمر دیابی، جسے عمر اومسن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، فرانسیسی سینیگالی نژاد ہے۔ وہ ماضی میں ایک جرم سے تائب ہو کر مبلغ بننے کا دعویٰ کر چکا ہے، تاہم 2016 میں امریکہ نے اسے بین الاقوامی دہشت گرد قرار دیا تھا۔
امریکی حکام کے مطابق، دیابی پر الزام ہے کہ وہ فرانسیسی بولنے والے جنگجوؤں کو شام بھیجنے میں مدد کرتا تھا۔
فرانسیسی حکام نے بھی اس کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کر رکھا ہے۔

