یوکرین پر روسی حملے کے تین برس بعد، دونوں ممالک کے وفود نے بدھ کے روز ترکی کے شہر استنبول میں براہ راست امن مذاکرات کا دوبارہ آغاز کر دیا ہے۔ ان مذاکرات کی میزبانی ترک صدر رجب طیب ایردوان کر رہے ہیں، جنہوں نے ایک بار پھر ترکی کو ایک غیر جانبدار ثالث کے طور پر پیش کیا ہے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی مذاکرات سے قبل استنبول پہنچے اور اس بات پر زور دیا کہ ان کی حکومت تمام مکالماتی راستوں کے لیے آمادہ ہے۔ اس کے برعکس، روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے مذاکرات میں براہ راست شرکت نہیں کی بلکہ ایک وفد بھیجا، جس کی قیادت ان کے معاون ولادیمیر میڈنسکی اور نائب وزیر دفاع الیگزینڈر فومین کر رہے ہیں۔پوٹن کی غیر موجودگی نے عالمی سطح پر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ کیا ماسکو ان مذاکرات کو واقعی سنجیدگی سے لے رہا ہے؟
مذاکرات کا محور ایک 30 روزہ مجوزہ جنگ بندی ہے، جسے امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اشارہ دیا ہے کہ اگر روسی صدر ان مذاکرات میں براہ راست شامل ہوتے ہیں تو وہ بھی سربراہی اجلاس میں شرکت کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی ایلچی سٹیو وٹ کوف اس وقت استنبول میں موجود ہیں تاکہ امریکی مفادات کی نمائندگی کر سکیں۔ ٹرمپ کی متوقع شمولیت کو واشنگٹن کی خارجہ پالیسی میں ایک "نئی جہت” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بائیڈن انتظامیہ کی سابقہ کوششیں خاطر خواہ نتائج نہیں لا سکیں۔
یوکرین نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی معاہدے کی بنیاد قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر ہونی چاہیے۔ روس کی جانب سے تاحال مذاکراتی شرائط کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا، جس کے باعث دونوں فریقین کے مؤقف میں واضح فرق موجود ہے۔
ترک صدر ایردوان نے ایک بار پھر زور دیا ہے کہ ان کی حکومت نہ صرف اس تنازع کو ختم کرانے کے لیے پرعزم ہے بلکہ خطے میں پائیدار امن و استحکام کی حمایت جاری رکھے گی۔ ترکی ماضی میں بھی اناج کی برآمدات کے معاہدے سمیت کئی کلیدی مراحل پر ثالثی کا کردار ادا کر چکا ہے۔