تین سال کے تعطل کے بعد روس اور یوکرین کے درمیان براہ راست امن مذاکرات کا دوبارہ آغاز استنبول میں ہو گیا۔یہ بات چیت مارچ 2022 کے بعد پہلی بالمشافہ ملاقات ہے، جس کی میزبانی ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے کی۔
مذاکرات میں کون شریک ہوا؟
- یوکرین کی نمائندگی وزیر دفاع رستم عمروف نے کی
- روسی وفد کی قیادت صدر کے مشیر میخائل میدیدینسکی نے کی
- مذاکرات میں دونوں ممالک کے صدور پوتن اور زیلینسکی شریک نہیں ہوئے
یوکرین کے مطالبات:
- غیر مشروط جنگ بندی
- انسانی امداد کی فراہمی میں وسعت
- قیدیوں کا تبادلہ
- روسی قبضے میں موجود یوکرینی بچوں کی واپسی
روس کا مؤقف:
- یوکرین کو غیرجانبدار ریاست کا درجہ اپنانا ہوگا
- نیٹو کی رکنیت کی خواہش ترک کرنا لازمی قرار دیا گیا
یوکرینی صدر زیلینسکی نے مذاکراتی عمل کو خوش آئند تو قرار دیا، لیکن روسی سنجیدگی پر شکوک کا اظہار کیا۔
امریکہ کو باہر رکھا گیا
ابتدائی بات چیت میں شامل ہونے کے باوجود، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو روسی اعتراضات کے باعث باضابطہ مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ یہ امر واشنگٹن-ماسکو کشیدگی کی عکاسی کرتا ہے۔
زمینی حقائق: کشیدگی بدستور برقرار
- کیف پر روسی ڈرون حملے جاری
- روس کی فوجی پیش قدمی میں تیزی
- یورپی رہنما البانیہ میں روس پر نئی پابندیوں پر غور کر رہے ہیں
ویٹیکن کی پیشکش
- پوپ لیو نے ویٹیکن کو آئندہ امن مذاکرات کے لیے غیر جانبدار مقام کے طور پر پیش کیا
- عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ "بات چیت جاری رکھنا ہی واحد راستہ ہے"
عالمی امیدیں اور چیلنجز
استنبول مذاکرات بظاہر مثبت آغاز ہیں، لیکن:
- گہرے اختلافات برقرار ہیں
- فی الحال بڑی پیش رفت کی امید کم ہے
- سفارتی کوششوں اور عالمی تعاون کی فوری ضرورت ہے