برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان پائیدار جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے قریبی تعاون کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک اعتماد سازی کے اقدامات کو فروغ دینے اور براہِ راست مذاکرات کی حوصلہ افزائی میں بھی شریک ہیں۔
لیمے کا یہ بیان ان کے دو روزہ دورہ پاکستان کے اختتام پر ہفتے کے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو کے دوران سامنے آیا، جہاں انہوں نے حالیہ کشیدہ صورتحال کو سنبھالنے کے لیے "مستقل سفارت کاری” کی ضرورت پر زور دیا۔
اہم نکات: برطانوی وزیر خارجہ کا بیان
- برطانیہ اور امریکہ کا مشترکہ مؤقف: دونوں طاقتیں بھارت اور پاکستان کے درمیان پائیدار جنگ بندی کے حق میں ہیں اور سفارتی سطح پر مکمل تعاون کر رہی ہیں۔
- اعتماد کی بحالی: حریفوں کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات اور مکالمے کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے۔
- سندھ طاس معاہدہ: بھارت کی جانب سے معاہدے کی معطلی پر لیمی نے خبردار کیا کہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی علاقائی استحکام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
- انسداد دہشت گردی پر تعاون: برطانیہ پاکستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں اپنا تعاون جاری رکھے گا۔
10 مئی کو کشمیر میں ایک مہلک حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں تیزی آئی، جس کے دوران میزائلوں کا تبادلہ ہوا۔ اس واقعے کے بعد فوری طور پر عالمی سطح پر سفارتی کوششیں شروع کی گئیں جن کے نتیجے میں عارضی جنگ بندی عمل میں آئی۔
لیمے نے اس جنگ بندی کو "انتہائی نازک” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عالمی سفارتی دباؤ اور ثالثی کا نتیجہ ہے، اور اس کو پائیدار بنانے کے لیے مسلسل سفارتی رابطے ناگزیر ہیں۔
برطانوی وزیر خارجہ نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے حوالے سے بھارت کے حالیہ اقدام پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ ایسے معاہدے صرف قانونی ہی نہیں بلکہ اعتماد اور استحکام کا ستون ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "تمام فریقین کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کا احترام کریں، کیونکہ ان کی خلاف ورزی سے نہ صرف موجودہ بحران بلکہ مستقبل کے امن کی راہیں بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔”
لیمے نے پاکستان کو درپیش دہشت گردی کے چیلنجز کو "خوفناک نقصان” قرار دیا اور کہا کہ برطانیہ پاکستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں مکمل تعاون جاری رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک پرامن پاکستان، خطے اور دنیا کے لیے فائدہ مند ہے۔