اسلام آباد — سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا ہے، جس میں ججز کے تبادلوں کو آئینی قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف دائر کی گئی تمام درخواستوں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
پانچ رکنی آئینی بینچ کی سربراہی جسٹس محمد علی مظہر نے کی، جنہوں نے دیگر فاضل ججوں کے ہمراہ مفصل فیصلہ سنایا۔ عدالت عظمیٰ کے اس اہم فیصلے نے آرٹیکل 200 کی تشریح کرتے ہوئے واضح کیا کہ ججز کے تبادلے کا عمل آئینی دائرہ کار میں آتا ہے اور اس میں بد نیتی منسوب نہیں کی جا سکتی۔
سماعت کے دوران بانی تحریک انصاف عمران خان کے وکیل ادریس اشرف نے عدالت سے آئین کے آرٹیکل 200 اور 175 کے درمیان ہم آہنگ تشریح کی استدعا کی۔ انہوں نے دلیل دی کہ خالی نشست پر مستقل تبادلہ غیر آئینی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے "ججز ٹرانسفر کا پورا طریقہ آئین کے آرٹیکل 200 میں درج ہے، اور جوڈیشل کمیشن کے پاس یہ اختیار نہیں ہے۔”
اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملی کہ کسی جج کا تبادلہ آرٹیکل 200 کے تحت کیا گیا ہو، تاہم ٹرانسفر کی موجودہ صورت میں وزیر اعظم اور صدر کا کردار محدود ہے، اور چیف جسٹس صاحبان بھی اس عمل میں شامل ہوتے ہیں
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس محمد آصف، اور جسٹس خادم حسین سومرو کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیا گیا تھا، جس کے خلاف پانچ سینئر ججز نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس میں جسٹس محسن اختر کیانی, جسٹس بابر ستار,جسٹس طارق جہانگیری, جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں علاوہ ازیں، عمران خان اور کراچی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
سپریم کورٹ کی 19 سماعتوں پر محیط اس کیس کی پہلی سماعت 17 اپریل 2025 کو ہوئی، جبکہ درخواستیں 20 فروری 2025 کو دائر کی گئی تھیں۔ عدالت نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ آئینی تشریحات کی روشنی میں سنایا، جس میں کہا گیا:”تبادلہ پر آئے ججز کو ڈیپوٹیشن پر قرار دینا قانونی طور پر درست نہیں۔”