نئی دہلی: بھارت میں ہندوتوا نظریے کے تحت مسلمانوں پر منظم مظالم، امتیازی سلوک اور ریاستی جبر کا سلسلہ روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ بی جے پی حکومت کے زیر سایہ تمام ریاستی ادارے بشمول میڈیا، پولیس اور عدلیہ مسلمانوں کے خلاف تعصبانہ اور امتیازی رویے اپنا رہے ہیں۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ جن میں بی بی سی، الجزیرہ، دی گارڈین، اور نیویارک ٹائمز شامل ہیں، بارہا اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ بھارت میں ریاستی سرپرستی میں مسلم کش پالیسیز کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مسلمان شہریوں کو معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی میدانوں سے دھکیلا جا رہا ہے جب کہ انہیں دہشت گرد، غدار اور غیر ملکی عناصر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے متعدد عوامی اجتماعات میں مسلمانوں کے خلاف بالواسطہ یا بلاواسطہ بیانات دیے۔ اتر پردیش کے ایک جلسے میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی علاقے میں قبرستان ہے تو وہاں شمشان گھاٹ بھی بنے گا۔اسی طرح انہوں نے کہا کہ رمضان میں اگر بجلی موجود ہے تو دیوالی میں بھی ہوگی۔کیا بھارتی عوام کی کمائی گھس بیٹھیوں (مسلمانوں) کو جائے گی؟
بی جے پی رہنما یوگی آدتیہ ناتھ نے اعلان کیا کہ اتر پردیش میں سڑک پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں، اور مسجدوں کے مائیک اتر گئے ہیں۔بی جے پی کے متنازع رکن اسمبلی راجہ سنگھ نے ہندو عوام سے اپیل کی کہ مسلمان دکانداروں سے کچھ نہ خریدا جائے۔
بھارت میں مسلمانوں کے گھروں، دکانوں، اور عبادت گاہوں پر مشتعل ہندو انتہا پسند ہجوم کے حملے اب معمول بن چکے ہیں۔ ان حملوں کو اکثر ریاستی پشت پناہی حاصل ہوتی ہےاور مجرموں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں آتی۔بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا بھی اس منظم مہم میں برابر کے شریک ہیں جو مسلمانوں کو ملک دشمن، شدت پسند اور تخریب کار بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ نفرت انگیز پروپیگنڈا نہ صرف عوامی رویوں پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ تشدد کو بھی ہوا دیتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں جاری مظالم کے تسلسل میں آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا گیا، جس کے بعد کشمیریوں کے مذہبی، سیاسی اور انسانی حقوق مزید سلب کر لیے گئے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کو ایک منظم منصوبے کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے، تاکہ انہیں خوف، غربت اور عدم تحفظ کی حالت میں رکھا جا سکے۔