بیجنگ — چین نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ وہ تائیوان پر طاقت کے استعمال سے مکمل طور پر انکار نہیں کرے گا، جبکہ بیجنگ کے سرکاری میڈیا میں حالیہ دنوں میں جزیرے کے "پرامن اتحاد” کے وعدوں پر نرم بیانیہ اختیار کیا گیا تھا۔
چینی حکومت کے ترجمان پینگ کنگ نے بدھ کے روز بیجنگ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا "ہم پرامن دوبارہ اتحاد کے لیے وسیع امکانات پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن اگر ضرورت پڑی تو طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کریں گے۔ تمام ضروری اقدامات کا اختیار محفوظ رکھا جائے گا۔”
پینگ کنگ نے کہا کہ چین اب بھی تائیوان کے ساتھ "ایک ملک، دو نظام” کے اصول کے تحت پرامن اتحاد کو ترجیح دیتا ہے، اور بیجنگ "انتہائی خلوص” کے ساتھ اس مقصد کو آگے بڑھا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین “تائیوان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پرامن راستہ” چاہتا ہے، مگر اگر جزیرہ چین کے ساتھ دوبارہ اتحاد سے انکار کرے تو بیجنگ تمام راستے کھلے رکھے گا۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کے سینئر رہنما وانگ ہننگ، جو تائیوان پالیسی کے انچارج ہیں، نے ہفتے کے روز اپنی پالیسی تقریر میں طاقت کے استعمال کا ذکر نہیں کیا، بلکہ دونوں فریقین کے ممکنہ فائدوں اور تعاون پر زور دیا۔
تاہم بدھ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی حکومت نے دوبارہ سخت مؤقف اختیار کر لیا ہے، جو کہ آنے والے دنوں میں تائیوان پر امریکی موقف کے لیے بھی چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔
تائی پے میں تائیوان کے نیشنل سیکیورٹی بیورو کے ڈائریکٹر جنرل تسائی منگ ین نے کہا کہ بیجنگ کا "محب وطن” ماڈل دراصل ہانگ کانگ اور مکاؤ کے طرز پر ہے، جس کا مقصد تائیوان کی خودمختاری کو کمزور کرنا ہے۔
انہوں نے کہا “چینی کمیونسٹ پارٹی کا مقصد تائیوان کی بین الاقوامی حیثیت کو ختم کرنا ہے۔ لیکن تائیوان میں ہانگ کانگ یا مکاؤ جیسا ماڈل کبھی قبول نہیں کیا جائے گا۔”
تائیوان کی حکومت نے بھی واضح کیا ہے کہ وہ چین کے خودمختاری کے دعووں کو مسترد کرتی ہے۔
یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات طے ہے۔
ٹرمپ نے بدھ کے روز صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ “یقینی نہیں” کہ اس ملاقات میں تائیوان کے مسئلے پر بات ہو گی یا نہیں۔
تائیوان نے 1996 میں اپنے پہلے براہِ راست صدارتی انتخابات کرائے، اور آج یہ جزیرہ جمہوریت، آزادیٔ اظہار اور عوامی سیاست کی ایک روشن مثال سمجھا جاتا ہے۔
چین کی جانب سے “ایک ملک، دو نظام” کا ماڈل اس کے لیے قابلِ قبول نہیں، کیونکہ اس کی مثال ہانگ کانگ کے محدود جمہوری انتخابات سے منسلک کی جاتی ہے، جہاں 2021 میں صرف "محب وطن” امیدواروں کو انتخاب لڑنے کی اجازت تھی۔

